بچوں کی ذہنی صحت کے مسائل، والدین کا کرب؟

تحقیق کے مطابق بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین کی اپنی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ ان میں ڈپریشن، پریشانی اور تنہائی پسندی کی وہ علامات ظاہر ہو رہی ہیں جس کا انہوں نے پہلے کبھی تجربہ نہیں کیا۔

ایک خاتون 18 نومبر 2010 کو پیرس کے ایک ہسپتال میں اپنی بیٹی کو گڑیا سے بہلا رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے اقدامات سے بچوں کے ہسپتال میں داخل ہونے کے نفسیاتی نتائج کو کم کرنا ممکن ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایلسن ملر حال ہی میں جب جنوب مغربی انگلینڈ کی ایک کاؤنٹی ڈورسیٹ میں اپنے اہلخانہ کو ملنے گئیں تو پہلی بار انہیں احساس ہوا کہ ان کی بیٹی شدید بیمار ہے۔

جب خاندان کے افراد ساحل کے قریب ایک گیسٹرو پب میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے تو اس وقت 13 سال کا بچہ وہاں سے کھسک گیا اور کچھ دیر تک واپس نہیں آیا۔

جنوب مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والی ایلسن ملر جب بچے کی تلاش کرنے کے لیے خواتین کے بیت الخلا گئیں تو نوعمر لڑکی انہیں ایک کونے میں دبک کر بیٹھی ہوئی ملی۔ ’وہ فرش پر بیٹھی چیخ رہی تھی کیونکہ کسی نے ہاتھ خشک کرنے والی الیکٹرک مشین (ہینڈ ڈرائر) چلا رکھی تھی۔

دو بچوں کی ماں ایلسن ملر کا کہنا ہے کہ وبا سے پہلے ان کی بیٹی ایک پراعتماد اور اوسط بچوں سے زیادہ کامیاب تھی۔ لاک ڈاؤن کے مہینوں کے دوران وہ پریشانی اور انتہاپسندانہ رویے کا شکار ہوگئی۔ وہ اب 15 سال کی ہو چکی ہیں جس میں شدید ذہنی بیماری کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ ان علامات میں تنہائی پسندی، آوازیں سننا اور نشونما کا رکنا شامل ہے ۔

ایلسن ملر نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ میری بیٹی کبھی ذہین، قابل اور آزاد لڑکی ہوا کرتی تھی لیکن اب ٹوٹ چکی ہے۔ میں اس کو اکیلے مارکیٹ پر جانے کی اجازت نہیں دے سکتی، وہ اب بہت کمزور ہے۔‘

اپنی بیٹی کی بیماری سے نمٹنے کی وجہ سے ایلسن ملر کی زندگی یکسر بدل گئی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی اپنی ذہنی صحت مسائل کا شکار ہوگئی ہے۔

’اگر اس کا دن برا ہو تو مجھے بھی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ آپ کے اندر بہتری کا تعلق ان (بچوں) کے ساتھ جڑا ہے۔ میری پریشانی اور تناؤ بہت بڑھا ہوا تھا، میں زیادہ دیر کے لیے نہیں سوئی تھی اور صبح 3 بجے جذباتی طور پر متاثرہ افراد کی مدد کرنے والے ادارے کے نمائندے سے ٹیلی فون پر کہہ رہی تھی کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی مدد کیسے کی جائے۔ مجھے اپنی زندگی کی پہچان نہیں رہی۔ مجھے وہ سب کچھ چھوڑنا پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے میں، میں تھی۔‘

ایلسن ملر نے کہا کہ انہیں بہت سے غموں نے گھیر رکھا ہے۔

’اس بے بسی کا احساس کہ کچھ خوفناک ہو رہا ہے اور آپ اس کی وجہ سے کچھ نہیں کر پا رہے اور اس کا کوئی آسان حل بھی نہیں ہے۔ یہ واقعی مایوس کن اور تکلیف دہ ہے۔‘

ملر کا مزید کہنا ہے کہ: ’اس لحاظ سے یہ ایک غمناک عمل بھی ہے کہ آپ اپنا بچہ کھو رہے ہیں۔‘

ان کی بیٹی اب تھراپی اور ڈرگ ٹریٹمنٹ سے گزر رہی ہیں لیکن ان کی حالت کا جو اثر خاندان پر پڑا وہ بالکل واضح ہے۔

ذہنی صحت سے مسائل سے دوچار بچوں کے والدین پر اثرات کے متعلق شاذ و نادر ہی بات کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ کہاوت بھی ہے کہ ’والدین صرف اتنا ہی خوش رہ سکتے ہیں جتنا ان کا ناخوش ترین بچہ۔‘

بچوں کی سوشلائزیشن اور نمو پر کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے اثرات کی وجہ سے ان کی ذہنی صحت سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے اور ان دونوں کے درمیان تعلق اب زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہے۔

جو والدین بیمار بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں وہ تیزی سے اپنی ذہنی صحت کو خراب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ان میں ڈپریشن، پریشانی اور تنہائی پسندی کی وہ علامات ظاہر ہو رہی ہیں جس کا تجربہ انہوں نے پہلے نہیں کیا۔

بچے کی ذہنی صحت کا اپنے والدین کی عادات سے متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ گھر کے ماحول اور ماں یا باپ کی ترتبیت کرنے کی اچھی صلاحیت کا گہرا اثر پڑتا ہے۔

لیکن کینیڈا کی یونیورسٹی آف واٹر لو کی نئی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس تعلق کے دوسرے طریقے سے چلنے کا امکان زیادہ ہے۔

یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکالوجی کے پروفیسر اور وبا کے دوران خاندانوں اور ذہنی صحت کے بارے میں مطالعے کے مرکزی مصنف ڈلن براؤن کو معلوم ہوا کہ دراصل والدین ذہنی صحت کے مسائل کے شکار بچوں کے بارے میں منفی رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے خاندان میں ایک ہی جیسا ردعمل بڑھ جاتا ہے۔‘

’ہمارے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کی ذہنی صحت کا اثر پرورش پر ہوتا ہے نہ کہ پرورش کا بچوں کی ذہنی صحت پر۔‘

اس تحقیق سے اُن والدین کے لیے بہت بڑے سوالات پیدا ہوگئے ہیں جو اچانک، اکثر غیر متوقع طور پر، نفسیاتی بحران کا شکار بچے کی پرورش کے نتیجے میں اپنی مشکلات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

کیمبرج شائر سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ اینڈریا نے کہا کہ انہیں اپنی ذہنی صحت اور اپنے پورے خاندان پر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی 14 سالہ بیٹی میں جو تبدیلیاں دیکھی ہیں، ان میں این ایچ ایس کی ذہنی صحت کی معاونت کے لیے طویل انتظار کی فہرستوں کی وجہ سے مزید اضافہ ہوا ہے۔

کیمبرج شائر سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ اینڈریا نے کہا کہ انہوں نے اپنی 14 سالہ بیٹی میں جو تبدیلیاں دیکھی ہیں ان کی وجہ سے ان کی اپنی ذہنی صحت اور اس کے پورے خاندان پر بہت زیادہ اثر پڑا اور سروس (این ایچ ایس) کی طویل فہرستوں کی وجہ سے یہ مزید بڑھ گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’میری بیٹی صرف ایک سال میں ایک خوش حال نوعمر سے پریشانی، خود کو نقصان پہنچانے، خودکشی کی کوششوں اور اب اسکول سے انکار کی طرف چلی گئی ہے۔‘

"اس میں سے کچھ عام نوعمری چیزیں ہو سکتی ہیں، لیکن جو بھی ہو ان کا خاندان پوری طرح شش و پنج کا شکار ہے۔ اس سے میری زندگی کا ہر وہ لمحہ متاثر ہوتا ہے جو میں جاگ کر گزارتی ہوں۔

آپ صرف گھر میں پھنس جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا یہ صرف آپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘

دوسروں کے لیے، ذہنی صحت خراب ہونا زیادہ اندرونی معاملہ ہے۔

کولچیسٹر سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ اینا بلیوٹ کا کہنا ہے کہ ان کی 10 سالہ بیٹی میں وبا کے دوران جسم کا ہلنا اور اضطراب کی دیگر علامات پیدا ہوئیں اور اس کا اپنے استحکام پر گہرا اثر پڑا۔

’یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے کہ میری بچی پریشان خیالات اور پریشانیوں میں کھینچتی چلی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دلدل ہم سب کو اندر کھینچ رہی ہے۔’والدین کی حیثیت سے آپ پریشان ہوتے ہیں )اگر( آپ اپنے بچے کو تناؤ سے بچانے کے لیے کافی کام کر رہے ہیں۔‘

بلویٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی فکر میں رہتی ہیں کہ آیا اپنی بیٹی کو مارکیٹ بھیجنے کے لیے گھر سے باہر نکالنے پر مجبور کرے’جس کی وجہ سے وہ ہائپر وینٹیلیٹ‘ ہو جاتی ہے، یا اس کے بجائے تکلیف سے بچانے کے لیے ہر وقت اس کی حفاظت کرتی رہے۔ یہ چیز بطور ماں میری تربیت کرنے کی صلاحیت کو شک میں ڈال دیتی ہے۔

’میں اور میرا ساتھی ہر وقت اس کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ کبھی کبھی مجھے دکھی اور بلکل توڑ دیتا ہے۔ اس چکر کو توڑنا مشکل ہے۔‘

یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں کلینیکل سائیکالوجی کے سینئر لیکچرر ڈاکٹر ڈورا برنارڈز کے مطابق فیملی ایک پیچیدہ یونٹ ہے، یہ ایک دوسرے سے منسلک نظام ہے اور اس نظام کے اندر کوئی بھی چھوٹی سی تبدیلی اس کے اندر موجود ہر شخص کو متاثر کرے گی۔ وہ کہتی ہیں :’اگر ایک شخص ٹھیک نہیں ہے تو اس سے پورے خاندان پر اثر پڑے گا۔‘

’ہم ان کے لیے پریشان اور فکر مند ہیں، ہم والدین کی حیثیت سے بے بسی اور ٹھکرائے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں، اور اس سے ہماری اپنی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ والدین اکثر اپنے آپ کو مجرم اور ناکام ہوتا ہوا محسوس کریں گے۔ وہ شرم کا شدید احساس محسوس کر سکتے ہیں۔‘

جیسا کہ برنارڈز کہتے ہیں کہ بچے کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے والدین کی جبلت۔۔۔’ہمارے بچوں کی دیکھ بھال‘، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے جسے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا تو اس سے والدین خوفزدہ ہو سکتے ہیں۔

ویسٹ سسیکس سے تعلق رکھنے والی 44 سالہ جیسیکا*، جن کے بچوں کو

لاک ڈاؤن کے دوران خاص طور پر سونے اور بے چینی جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ کہتی ہیں کہ:’ مجھے ان کا سامنا ایسے مسائل سے ہوا جو خود کشی تک کی کوششوں تک لے گئی۔ "میں نے خاص طور پر ایک سماجی مسئلہ اور اور بہت بڑی سماجی پریشانی دیکھی کہ :لوگ مجھے پسند نہیں کرتے تھے۔‘

انہوں نے اینٹی ڈپریسنٹس لینے کا انتخاب کیا، لیکن ان سے نمٹنے اور جسمانی طور پر مضبوط محسوس کرنے کے لیے ورزش بھی کرتی ہیں۔‘

سکول کے طلبہ اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کام کرنے والے بچوں اور تعلیمی ماہر نفسیات کے ڈاکٹر جین ولز لامیک کے مطابق ایسے والدین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کو اپنی ذہنی صحت کے لیے اضافی مدد کی ضرورت ہے۔

سکول رپورٹ کر رہے ہیں کہ وبا کی وجہ سے تربیت سخت متاثر ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کا پہلا قدم والدین کے لیے اپنے احساسات کی توثیق کرنا ہے؛ یہ تسلیم کرنا کہ وہ اپنے بچے کی بیماری سے متاثر ہیں، کہ یہ فطری، قابل فہم ہے اور اس کی توقع کی جانی چاہئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’والدین کی حیثیت سے ہم سے وہ بننے کی توقع کی جاتی ہے جو اپنے بچوں کی ہر چیز کو سنبھالتے ہیں۔‘

والدین کی اپنی تربیت میں کمی دیکھنے کے لیے، ڈاکٹر ولز لاماکیک تین اقدامات کی سفارش کرتے ہیں: یہ دیکھنا کہ خاندان کے گھر میں کون سے واقعات یا مسائل آپ کے اپنے منفی احساسات کو متحرک کرتے ہیں؛ بچوں کو ان کا وقت نہ دینا، اور مدد کے لیے کسی کو کہنا- چاہے وہ تھراپی کے ذریعے باضابطہ معاونت ہو، یا دوسرے والدین یا خاندان کی پشت پناہی ہو۔

لاک ڈاؤن کے بعد بہت سے والدین اور خاص طور پر ماؤں کو اپنے لیے وقت نکالنا مشکل ہوگیا ہے، اور ذہنی پریشانی میں مبتلا بچے کی دیکھ بھال کرتے وقت یہ اور بھی مشکل ہوتا ہے۔

2020 سے پہلے والی تفریح کی طرف لوٹنا ان کے معمول اور پرسکون احساس کو بحال کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر ولز لاماکیک کا کہنا ہے کہ:’یہ چیزیں ہماری روزمرہ کی زندگی سے باہر ہو گئیں اور یہ سوچنے کے لیے متحرک ہونا پڑے گا کہ کیا آپ انہیں واپس حاصل کر سکتے ہیں، اور وہ کام کرنا جو واقعی مشکل ہے: مدد مانگنا۔‘

گھر سے باہر اپنے احساسات سے نمٹنے کے لیے بلیوٹ کو کچھ کامیاب طریقہ کار مل گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ:’جب مجھے گھر میں برا محسوس ہونے لگتا ہے تو مجھے سادہ جسمانی مشقت والے کام میں سکون ملتا ہے: بھاگنے کے لیے باہر جانا، کمیونیٹی گارڈن میں جڑی بوٹیوں میں ٹھوکر مارنا؛ کھاد کے ڈبے کا مواد باہر نکالنا اور اسے دوبارہ بھرنا،

انہیں بچوں کے ساتھ اور بڑے دوستوں سے بات کرنے میں بھی مدد ملی ہے کہ وہ کس تجربے سے گزر رہی ہیں۔

یونیورسٹی آف باتھ میں نفسیات کی ایک سینئر لیکچرر ڈاکٹر ماریہ لوڈز دباؤ میں والدین کو سفارش کرتی ہیں کہ:’پہلے بنیادی چیزیں درست کریں۔‘ اچھا کھانا، زیادہ سے زیادہ سونا اور ہر روز کسی نہ کسی قسم کی جسمانی سرگرمی کرنا۔

آج یہ کرنا آسان ہے کیونکہ آن لائن بہت سے مفت وسائل موجود ہیں، جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایمرجنگ مائنڈز کی طرف سے تیار کردہ والدین کے لیے رہنمائی ہے۔

کچھ اور بھی ہے جس پر غور کیا جاسکتا ہےبالغوں کے احساسات کو ان کے بچوں کے احساسات کے ساتھ ضم کرنا کتنا خطرناک ہے۔

کونسلر لوئس ٹائلر کے مطابق آج کے دور کے والدین اپنے بچوں کے ساتھ ’پھنس‘ گئے ہیں- یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتی ہیں کہ والدین‘ بچوں کے ساتھ ان کی پریشانی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اس کا جواب تنہائی اختیار کرنا نہیں بلکہ ایک’خوشگوار ذریعہ‘ تلاش کرنا ہے۔

ذہنی بیماری کا شکار بچے کے ساتھ رہنے سے والدین پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اس کے بارے میں کھل کر بات کرنا بھی راحت اور یقین دہانی کا ذریعہ رہا ہے۔

ملر کے لیے فیملی کنکشنز نامی پرورش کا کورس’گیم چینجر‘ تھا۔ اس سے انہیں یہ تسلیم کرنے میں مدد ملی کہ ان کی بیٹی اور ان کی اپنی زندگی بدل گئی ہے - لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے لیے خوشی واپس نہیں آ سکتی۔

فیس بک کے پیرنٹنگ مینٹل ہیلتھ گروپ میں شامل ہونے سے انہیں انہی مسائل کا سامنا کرنے والے دیگر والدین کے ذریعے آن لائن مدد بھی ملی۔ گروپ کے ارکان کی تعداد 2019 سے 2020 تک اور پھر 2020 سے 2021 تک دگنی ہوگئی۔

وبا کے دوران یہ چھ ہزار سے بڑھ کر 25 ہزار ارکان تک پہنچ گئی ہے۔ جب اس کے اراکین سے پوچھا گیا اپنی ذہنی صحت قائم رکھنے میں کس چیز سے مدد ملی تو اکثریت نے کہا کہ ایک ہم عمر معاون گروپ کے ذریعے آن لائن سکون اور ہمدردی تلاش کرنا۔ اراکین نے دوستوں اور اہل خانہ سے کھل کر بات کرنے، خاندان کے گھر سے دور وقت، خود کی دیکھ بھال کے کام اور اکیلے وقت گزارنے کی بھی سفارش کی۔

کھل کر بات کرنے سے ملر کو یقینا مدد ملی ہے۔ وہ کہتی ہیں،’میں نے جتنا زیادہ لوگوں سے بات کی اتنی ہی اچھی چیزیں میرے راستے میں آتی گئیں۔

’اس گروپ نے مجھے سکھایا ہے کہ اپنی دیکھ بھال کے لیے ایک دن کے لیے سپا جانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ کافی کے ایک کپ اور دباؤ ہٹانے کے لیے کسی چیز کے انکار سے بھی ہو سکتی ہے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت