کرکٹ کے سب سے بڑے معرکے یعنی ورلڈکپ کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو جانے کے بعد اب اس حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا تو اختتام ہوچکا، لیکن قومی ٹیم میں کی گئی محض ایک تبدیلی پر چاروں جانب سے تنقید ہو رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ جب صرف ایک کھلاڑی بھی بحالت مجبوری تبدیل کرنا تھا تو حتمی سکواڈ کے اعلان میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟
اس تنقید کا جواب تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے نہیں دیا، لیکن چیف سلیکٹر انضمام الحق نے جس انداز سے ٹیم کا اعلان کیا، اس سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں ایک کاغذ تھما دیا گیا تھا اور ان کا کام بس میڈیا کو مطلع کرنا تھا۔
پاکستان ٹیم انڈیا کی جنوبی ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ دارالحکومت حیدرآباد سے اپنے میچوں کا آغاز کرے گی۔
ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم نیدرلینڈز کے خلاف پاکستان اپنی جیت کے سفر کا آغاز کر سکتا ہے جو گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے کا سبب بنی تھی۔ اس نسبتاً کمزور اور نئی ٹیم سے کسی بڑی کارکردگی کی تو توقع نہیں ہے لیکن کرکٹ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
ٹیم کی بیٹنگ کی تیاری کیسی ہے؟
پاکستانی ٹیم کی ایشیا کپ میں غیر متوقع شکست نے اسے سخت دھچکا پہنچایا ہے۔
معروف اور صف اول کے کھلاڑیوں کے باوجود ٹیم جس طرح سری لنکا کے خلاف پسپا ہوئی، اس نے بہت سارے سوالوں کو جنم دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کی بیٹنگ اوپننگ میں مسائل کا شکار ہے، فخر زمان کی خراب فارم کے باوجود ان کا انتخاب ایک جوئے سے کم نہیں ہے۔ وہ رنز بھی نہیں بنا رہے اور نہ کوئی بڑی پارٹنرشپ فراہم کررہے ہیں۔ ان کو منتخب کرکے اس دباؤ کو تسلسل دیا گیا ہے جو ایشیا کپ سے شروع ہوا ہے۔
اگرچہ فخر زمان کے کیریئر میں چند قابل دید اننگز ہیں لیکن وہ اب ان کے سہارے کب تک کھیلیں گے؟
امام الحق دوسرے اوپنر ہیں۔ ان کا پاکستان سے باہر ریکارڈ اتنا متاثر کن نہیں ہے لیکن انڈین پچز کی پاکستانی پچز سے مماثلت ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
بیٹنگ میں بابر اعظم ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ٹیم بہت زیادہ ان پر بھروسہ کرتی ہے، کپتان کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں لیکن پہلی دفعہ وہ انڈیا میں کھیلنے جا رہے ہیں جن کو یقیناً دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مڈل آرڈر میں اگر کپتان راضی ہوئے تو سعود شکیل نمبر چار پر بیٹنگ کریں گے ورنہ محمد رضوان ان کی جگہ لیں گے لیکن وہ پوزیشن کے ساتھ اب تک انصاف نہیں کر سکے ہیں۔ وہ قدرتی طور پر جارحانہ کھلاڑی ہیں اس لیے اگر وہ چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھیلتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔
پاکستان کی اصل پریشانی نمبر پانچ اور چھ کی ہے، جہاں سلمان آغا اور افتخار احمد مورچہ سنبھالیں گے لیکن دونوں اس نازک صورت حال میں گھبراہٹ کاشکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستانی بیٹنگ کے لیے دوسری پریشانی لمبی پارٹنر شپ کا فقدان ہے۔ گذشتہ میچوں میں بڑی پارٹنرشپ نہیں بن سکی ہیں، جو ایک روزہ میچوں میں بنیادی عنصر ہے۔
پاکستان کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ انڈین گراؤنڈز پر 300 سے کم سکور کا دفاع ناممکن ہوگا کیونکہ بڑے گراؤنڈز اور بیٹنگ پچز پر رنز کی برسات ہوگی۔
پاکستانی بولنگ کیا کرسکتی ہے؟
ماضی میں پاکستان ٹیم کی جیت زیادہ تر بولنگ کی مرہون منت رہی ہے۔ ورلڈکپ میں بھی بولنگ ہی جیت کی ضامن ہوگی۔
شاہین شاہ آفریدی اہم ترین بولر ہوں گے جن کا پہلا اور آخری سپیل بہت اہم ہوگا۔ اگرچہ انڈین پچز پر انہیں قدرتی سوئنگ تو نہیں ملے گی لیکن وہ ریورس سوئنگ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ سرخ مٹی سے بنی پچوں پر گیند جلدی پرانی ہوتی ہے اسی لیے انہیں اپنی لینتھ کو بھی ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔
حارث رؤف کے لیے انڈین پچ بہت مشکل ہوگی کیونکہ وہ یارکر پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، ان کی فٹنس بھی مسئلہ بنے گی۔ وہ شاید سارے میچ نہ کھیل سکیں۔
حسن علی کے پاس بہترین موقع ہوگا کہ وہ اپنی اِن سوئنگ بولنگ سے بلے بازوں کو پریشان کرسکیں، لیکن سب سے اہم کردار سپنرز کا ہوگا۔
شاداب خان آؤٹ آف فارم ہیں لیکن اسامہ میر اور محمد نواز حیران کرسکتے ہیں تاہم ایک وقت میں دونوں میں سے ایک ہی ٹیم کا حصہ بن سکے گا۔
پاکستان کو بولنگ پلان میں دو تین منصوبے تیار رکھنے ہوں گے کیونکہ بیٹنگ وہاں بہت آسان ہوگی۔ چنئی میں اوس کا کردار بھی اہم ہوگا۔
کون سا میچ بہت اہم ہو گا؟
ویسے تو پاکستان کے سارے میچ بہت اہم ہیں، مگر نو میچوں کے کھیلنے کے بعد پوائنٹس ٹیبل بہت زیادہ نشیب وفراز کی حامل ہو جائے گی لیکن پاکستان کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف میچ بہت اہم ہوں گے کیونکہ ان کے خلاف کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔
دوسری دو مضبوط ٹیموں انڈیا اور انگلینڈ کے خلاف شکست کے باوجود پاکستان دوسری ٹیموں کو شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان کو جنوبی افریقہ سے زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی کیونکہ وہ سپنرز کو زیادہ اچھا نہیں کھیل پاتے، البتہ قومی ٹیم کو سری لنکا اور افغانستان سے بھی خبردار رہنا ہوگا۔
فٹنس کے مسائل
انڈیا کے گرم موسم اور خشک ہواؤں کے باعث پاکستانی ٹیم کو فٹنس پر بہت نظر رکھنا ہوگی۔ پاکستانی بولرز کو گرم موسم میں مسائل درپیش ہوں گے۔ حارث رؤف اور حسن علی کے لیے بہت زیادہ مسائل ہوسکتے ہیں تاہم اب جدید کرکٹ میں انرجی سیونگ کے پلان پر عمل کرکے ان مسائل پر قابو پایا جا رہا ہے، جس میں کمزور ٹیموں کے خلاف اہم کھلاڑیوں کو آرام دیا جاتا ہے اور بڑی ٹیموں کے خلاف چھوٹے سپیل میں بولنگ کی جاتی ہے۔
پاکستان کے بلے بازوں کو بھی اپنی فٹنس پر سخت نظر رکھنی ہوگی۔ پاکستانی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ آسان نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کو آف دی فیلڈ بھی بہت زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں اس لیے کھلاڑیوں اور میجنمٹ کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔