افغانستان نے پاکستانی طالبان کی گرفتاریوں کے بارے میں بتایا: پاکستان

نگران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق قائم ہو اور القدس الشریف کو فلسطین کا دارالخلافہ ہونا چاہیے۔

پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی 28 ستمبر 2023 کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (سکرین گریب وزارت خارجہ فیس بک)

پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان نے انہیں پاکستانی طالبان کی گرفتاریوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

یہ بات نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب بتائی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جہاں تک افغانستان سے متعلق میڈیا رپورٹس ہیں جس میں غالباً انہوں نے بتایا اور اگر تو وہ افغان شہری ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ان کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کریں گے لیکن ہماری خواہش ہو گی کہ وہ انہیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دیں۔‘

تاہم انہوں نے ان کی تعداد یا گرفتار افراد کون ہیں ان کی تفصیل نہیں بتائی۔ میڈیا رپورٹس میں 200 پاکستانی طالبان کی گرفتاریوں کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

جلیل عباس نے کہا کہ ’پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی حدود کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات کرے گا اور اس کے لیے تمام آپشنز کھلے ہیں میں ان پر تفصیل سے بات نہیں کرنا چاہوں گا۔‘

پاکستان کے افغانستان میں نمائندہ خصوصی آصف درانی کے حالیہ دورہ کابل کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میں ابھی نیویارک سے آیا ہوں اور کی ملاقات کی تفصیل سے آگاہ نہیں ہوں البتہ ان کی وہاں ملاقات کافی مفید رہی ہے۔‘

افغانستان میں پاکستان کے اندر شدت پسند کارروائیوں میں ملوث افراد کی گرفتاری کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

افغان طالبان اور پاکستان کے مابین تعلقات تب کشیدہ ہوئے تھے جب چترال میں دو ہفتے پہلے پاکستانی حکام کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ افغانستان سے در اندازی کی گئی ہے جس چار فوجی اہلکار جان سے گئے تھے۔ 

اس کے بعد افغان طالبان کے ذبیح اللہ مجاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور پاکستان اپنی سکیورٹی کے خود ذمہ دار ہے۔

ذبیح اللہ نے مزید بتایا تھا کہ ہم افغانستان کی زمین کو کسی کے خلاف بھی استعمال ہونے نہیں دیں گے اور چترال کے واقعے کا افغانستان پر الزام سراسر بے بنیاد ہے۔

اسرائیل کے بارے میں سوچ

پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان میں اسرائیل کے بارے میں کوئی سوچ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ پاکستان قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں اور اس وقت اسرائیل کے بارے میں پاکستان میں کوئی سوچ نہیں ہے اور اس بارے میں پاکستان کا موقف بہت واضح ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ میں نگران وزیراعظم کا جو خطاب تھا یا او آئی سی کے کانٹیکٹ گروپ کے اجلاس میں ہم نے واشگاف انداز میں واضح کیا تھا کہ فلسطینیوں پر جو جبر و ستم ہو رہا ہے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں وہ ختم ہونا چاہیے، فلسطینیوں کو ان کا حق خودارادیت ملنا چاہیے، جو بستیاں بسائی جا رہی ہیں انہیں بند کیا جانا چاہیے اور فلسطین کا مسئلہ ان کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔‘

نگران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق قائم ہو اور القدس الشریف کو فلسطین کا دارالخلافہ ہونا چاہیے، یہ پاکستان کا موقف رہا ہے جس پر زور دیا اقوام متحدہ میں مختلف موقعوں پر۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جلیل عباس جیلانی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پاکستان کا کشمیر سے متعلق اور فلسطین سے متعلق ایک ہی موقف ہے اور دونوں میں حق خود ارادیت کی بات کی جاتی ہے جو کہ ان کے مطابق ’یہی پاکستان کا قومی مفاد بھی ہے۔‘

پاکستان کا وفد کتنے افراد پر مشتمل تھا؟

ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ میں پاکستان کا وفد صرف تین افراد پر مشتمل تھا جن میں وزیر اعظم، میں خود اور سیکریٹری خارجہ شامل تھے۔ یہ میرے خیال کے مطابق پاکستان موقف دنیا کے سامنے رکھنے کا سب زیادہ کم خرچ طریقہ تھا۔‘

روس کے ساتھ تعلقات

ایک سوال کے جواب میں جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ ’روس کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور جنوبی ایشیا اور یورپ سمیت کئی ممالک ہیں جن کے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔

’جہاں تک آئل یا دیگر اشیا روس سے خریدنے کی بات ہے، پاکستان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جو کسی ملک سے مختلف ہو، میرا خیال ہے کہ پاکستان یہ تیل خرید کر کسی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی نہ ہی کوئی الاقوامی قانون نہیں توڑا ہے۔‘

کرکٹ ورلڈ کپ میں ویزوں کا معاملہ

کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی شائقین کو ویزوں کے اجرا میں درپیش مشکلات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پم اس معاملے میں سفارتی چینلز سے بات کرنے کی کوشش کریں گے اور میرا خیال ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی انڈین کرکٹ بورڈ سے بات کرنے میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ایک آئی سی سی کے قوانین میں بھی ہے کہ جس ملک کی ٹیم وہاں گئی ہے اس کے شائقین کو جانے کی اجازت دینی چاہیے تو اس قانون پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان