سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ زبان امونیم کلورائیڈ کو چھٹے بنیادی ذائقے کے طور پر محسوس کر سکتی ہے۔
اس کے علاوہ زبان میٹھے، کھٹے، نمکین، کڑوے اور دوسرے بنیادی ذائقے محسوس کرتی ہے۔
جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں جمعرات کو شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ زبان پر موجود پروٹین ریسیپٹرز جو کھٹے ذائقے کا پتہ لگانے میں مدد دیتے ہیں وہ امونیم کلورائیڈ کا ذائقہ بھی محسوس کرتے ہیں جو سکینڈے نیوین کینڈیز کا مقبول جزو ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی نیورو سائنس دان اور اس تحقیق کی شریک مصنفہ ایملی لیمن کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ سکینڈے نیوین ملک میں رہتے ہیں تو آپ اس ذائقے سے واقف ہوں گے اور ممکن ہے کہ اسے پسند کرتے ہوں۔‘
سالٹ لکوریس (نمکین ملٹھی) کم از کم 20 ویں صدی کے اوائل سے کچھ شمالی یورپی ممالک میں مقبول کینڈی رہی ہے اور اس کے اجزا سالمیاک نمک یا امونیم کلورائیڈ پر مشتمل ہیں۔
اگرچہ سائنس دانوں کو معلوم ہے کہ زبان امونیم کلورائیڈ چکھنے پر کسی نہ کسی طرح سے ردعمل ظاہر کرتی ہے لیکن زبان پر موجود مخصوص پروٹین ریسیپٹرز جو یہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں وہ دہائیوں کی وسیع تحقیق کے باوجود پوشیدہ رہے ہیں۔
یہ صورت حال اس وقت مزید واضح ہو گئی جب حالیہ تحقیق میں زبان کے پروٹین ریسیپٹر کے ذریعے کھٹے ذائقے کا پتہ لگانے والی پروٹین کا انکشاف ہوا جسے او ٹی او پی ون کہا جاتا ہے۔
یہ پروٹین زبان میں خلیوں کی جھلیوں کے اندر موجود ہوتی ہے اور ہائیڈروجن آئنز کے لیے راستہ بناتی ہے۔ ہائیڈروجن آئنز کھٹی غذا کا اہم جزو ہیں جو اس راستے سے زبان کے خلیوں تک پہنچتے ہیں۔
او ٹی او پی ون، لیموں پانی جو سائٹرک اور ایسکوربک ایسڈ سے بھرپور ہوتا ہے اور سرکے جیسے دیگر ترش مشروبات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح جب اس طرح کی خوراک زبان تک پہنچتی ہے تو زبان ان کی کھٹاس محسوس کرتی ہے۔
چوں کہ امونیم کلورائیڈ سیل میں ہائیڈروجن آئنز کے ارتکاز کو بھی متاثر کرتا ہے اس لیے محققین کا خیال ہے کہ آیا یہ او ٹی او پی ون کو بھی متحرک کرتا ہے۔
اس بات کا جائزہ لینے کے لیے سائنس دانوں نے او ٹی او پی ون ریسیپٹر کے پیچھے موجود جین کو لیبارٹری میں تیار کردہ انسانی خلیات میں داخل کیا تاکہ خلیات او ٹی او پی ون ریسیپٹر تیار کریں۔
اس کے بعد محققین نے ان خلیوں کو تیزاب یا امونیم کلورائیڈ میں ڈالا اور ردعمل کی جانچ کی۔
ڈاکٹر لیمن نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ امونیم کلورائیڈ، او ٹی او پی ون چینل کو واقعی بھرپور انداز میں فعال کرتا ہے۔ یہ اسے تیزاب کے مقابلے میں اچھا یا بہتر طور پر فعال کرتا ہے۔‘
امونیم کلورائیڈ سے امونیا کی تھوڑی سی مقدار خلیے کے اندر منتقل ہوتی پائی گئی۔
چونکہ امونیا الکلی ہے اس لیے وہ پی ایچ (تیزاب یا بنیادی مادے کی مقدار) کو بڑھاتی ہے جس سے ہائیڈروجن آئن کم ہوجاتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پی ایچ کا یہ فرق او ٹی او پی ون کے ذریعے ہائیڈروجن آئنز کے سفر کا سبب بنتا جس کا پتہ چینل میں برقی موصلیت میں تبدیلیوں کی پیمائش کرکے لگایا جاسکتا ہے۔
اس کی پیمائش کے لیے سائنس دانوں نے عام چوہوں اور جینیاتی طور پر تبدیل کیے گئے چوہوں میں ذائقہ محسوس کرنے والے خلیوں کو استعمال کیا جو او ٹی او پی ون پیدا نہیں کرتے۔
انہوں نے یہ پیمائش کی کہ جب امونیم کلورائیڈ کو استعمال کیا گیا تو ذائقے کے خلیات نے برقی ردعمل کو کتنی اچھی طرح پیدا کیا۔
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ او ٹی او پی ون امونیم کلورائیڈ جیسی نمکین چیزوں پر ردعمل ظاہر کرنے کے معاملے میں عام چوہوں کے ذائقے کے خلیات کے لیے اہم ہے لیکن او ٹی او پی ون کے بغیرچوہوں کے ذائقے کے خلیے نمکین ذائقہ چکھنے کے بعد دماغ کو صحیح سگنل بھیجنے میں ناکام رہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ او ٹی او پی ون امونیم کلورائیڈ پر ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔
سائنس دانوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ فعال او ٹی او پی ون پروٹین والے چوہوں میں امونیم کلورائیڈ کا ذائقہ غیر پرکشش پایا گیا اور انہوں نے نمک سے بھرا پانی نہیں پیا۔ جب کہ اس پروٹین کی کمی والے چوہوں کو نمک کی بہت زیادہ مقدار والے محلول پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
ڈاکٹر لیمن کے مطابق: ’یہ واقعی بڑی بات تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امونیم کے جواب میں رویے پر مبنی ردعمل کے لیے او ٹی او پی ون چینل کی موجودگی ضروری ہے۔‘
محققین کو یہ بھی پتہ چلا کہ کہ او ٹی او پی ون چینل دوسری انواع کے مقابلے میں انواع کی کچھ اقسام میں امونیم کلورائیڈ کے لیے زیادہ حساس دکھائی دیتا ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ امونیم کلورائیڈ کا ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت جانداروں کو ایسے نقصان دہ حیاتیاتی مادے کھانے سے روکنے میں معاون ثابت ہوئی ہو جن میں امونیم کی مقدارزیادہ تھی۔
ڈاکٹر لیمن نے وضاحت کی ہے کہ ’امونیم فاضل مادے میں پائی جاتی ہے۔ کھاد پر غور کریں جو کسی حد تک زہریلی ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس کا پتہ لگانے کے لیے ہمارے اندر ذائقے کے نظام نے ترقی کی۔‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ضمن میں انواع کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
© The Independent