سپریم کورٹ آف پاکستان نے نو مئی کے پرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر ملوث عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں سماعت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے پیر 23 اکتوبر کو نو مئی کے واقعات کے بعد فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات چلانے کے فیصلے کے خلاف مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ بینچ کا فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
جسٹس یحیٰی الگ نوٹ جاری کریں گے۔
عدالت عظمیٰ نے ملٹری ایکٹ کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کی دونوں ذیلی شقیں کو آئین کے خلاف قرار دیا اور اس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیرآئینی قرار دیا۔
سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیرآئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ ’نو مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 افراد کے خلاف سماعت فوجی عدالتوں میں نہیں بلکہ فوجداری عدالتوں میں ہوگی۔‘
سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں۔
بینچ کے مطابق ’فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ عدالت نے آج سوا گھنٹہ دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
گذشتہ سماعت رواں برس تین اگست کو ہوئی تھی۔ جس میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ مسلح افواج کو ’غیرآئینی اقدامات‘ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جبکہ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔
دو روز قبل عدالت میں نو مئی کے واقعات میں ملوث نو ملزمان نے درخواست اور بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرایا دی تھا کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیا جائے، کیونکہ ان کو فوجی عدالتوں پر مکمل اعتبار ہے ان کے ساتھ اپنائے گئے رویے پر وہ مطمئن ہیں۔
آج کی سماعت میں درخواست گزاروں کے وکیل ساجد الیاس بھٹی سے بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ’کیا آپ اپنے تمام درخواست گزاروں سے ملے ہیں؟‘
جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’درخواست گزاروں سے تو نہیں لیکن ان کے اہل خانہ سے ملاقات ہوئی ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’بیان حلفی وہ شخص دیتا ہے جس نے درخواست خود دائر کی ہو اس لیے یہ درخواست خارج کی جاتی ہے۔‘
سماعت کے آغاز میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ملزمان کا ٹو ون ڈی کے تحت ٹرائل کیا جائے گا۔ سوال پوچھا گیا تھا کہ ملزمان پر چارج کیسے فریم ہو گا۔ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمہ کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے۔‘
’نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہو گا۔ فیصلے میں وجوہات دی جائیں گئیں شہادتیں ریکارڈ ہوں گی۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تمام تقاضے پورے ہوں گے۔ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی میں اپیلیں آئیں گی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’دلائل کے دوران عدالتی سوالات کے جوابات بھی دوں گا۔ ملزمان میں شہری اور کالعدم تنظیموں کے لوگ بھی تھے۔ دلائل میں مختلف عدالتی فیصلوں کے مندرجات کا حوالہ بھی دوں گا۔‘
’میں گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا۔ میں بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کے لیے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی، میں آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا۔ 21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دوں گا۔ عدالت کو آگاہ کروں گا کہ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں کیوں بنائی تھیں۔ عدالت کو یہ بھی بتاؤں گا کہ اس وقت فوجی عدالتوں کے لیے آئینی ترمیم کیوں ضروری نہیں۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ’ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیرملکی یا دہشت گرد؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’ملزمان میں ملکی و غیرملکی دونوں ہی شامل تھے۔ سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے۔ فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہوسکتا جو اس کے زمرے میں آئے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر سوال کیا کہ ’جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں؟‘
جسٹس عائشہ ملک نے بھی ریمارکس دیے کہ ’کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے؟ آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے، عام شہریوں پر آرمی کے ڈسپلن اور بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہوسکتے؟ عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے گا۔‘
’کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہے بنیادی حقوق معطل کر دیے جائیں؟ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔ جبکہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔‘
جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ ’دہشت گردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘
جسٹس مظاہر علی نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’آپ آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھیں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کے لیے ہوتا ہے، آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے؟‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے۔ کسی کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی اس قانون میں جرم بن جاتا ہے۔ بات فورسز میں ڈسپلن کی حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے۔ جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’آئین اور قانون آرمڈ فورسز کو فرائض کی ادائیگی کا پابند کرتا ہے۔ قانون انہیں کہتا ہے کہ آپ فرائص ادا نہ کر سکیں تو آئین کے بنیادی حقوق کا حصول آپ پر نہیں لگے گا۔ آپ اس بات کو دوسری طرف لے کر جا رہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں جو انہیں ڈسٹرب کرے ان کے لیے قانون ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’آرمڈ فورسز سے تعلق کی اصطلاح بھی موجود ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ ایف بی علی ریٹائرڈ تھے اس لیے سیکشن ٹو ون ڈی کے تحت چارج ہوئے۔ دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ کیا ملزمان کا تعلق آرمڈ فورسز سے ثابت ہے یا نہیں۔ اس عدالت نے 21ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا اور قرار دیا کہ فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہو گا۔‘
فوجی عدالتیں
عام فہم الفاظ میں فوجی عدالتیں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قائم کی جاتی ہیں اور فوج کے حاضر سروس افسران ہی ان عدالتوں میں بطور جج بیٹھتے ہیں۔
یہ عدالتیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم کردہ عام عدالتی ڈھانچے سے باہر کام کرتی ہیں اور ملک کی باقی فوجداری عدالتوں کے برعکس وہ ملک کے عمومی ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت پر شق وار عمل کرنے کی پابند نہیں ہیں۔
ان عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست بھی سزا کی نوعیت کے مطابق صرف فوجی حکام یا فوجی سربراہ یعنی چیف آف آرمی سٹاف کو ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ عدالتیں ہائی کورٹس کی عمومی انتظامی ماتحتی میں نہیں آتیں اور آئین کے آرٹیکل 199 میں دیے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرنے کے علاوہ ملک کی اعلی عدلیہ ان عدالتوں کی کارروائی یا سزاؤں کی بابت کوئی حکم صادر نہیں کر سکتیں۔