فوجی عدالتیں اور سوموٹو: چند سلگتے سوالات

اگر اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی کارروائی ناقص ہو جاتی ہے تو اپیل کا حق نہ ہونے کے باوجود سوموٹو کی کارروائی کو ناقص کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟

فوجی عدالتیں آرمی ایکٹ کے مطابق کام کرتی ہیں جب کہ سوموٹو کا اختیار آئین میں سپریم کورٹ کے پاس ہے لیکن عملی طور پر یہ اختیار صرف جناب چیف جسٹس کا ہو کر رہ گیا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

انصاف کے جن آفاقی اصولوں پر فوجی عدالتوں کو پرکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیا وجہ ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق کبھی سوموٹو اختیارات پر نہیں کیا جا سکا؟

اگر فوجی عدالتوں میں سزا کے بعد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کا حق نہیں ہے تو کیا سوموٹو میں دیے گئے فیصلے کے خلاف کسی کو کسی بھی فورم پر اپیل کا حق میسر ہے؟ اگر یہ حق دونوں میں نہیں ہے تو دونوں کو ایک ہی نظر سے کیوں نہیں دیکھا جا رہا؟

اگر اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی کارروائی ناقص ہو جاتی ہے تو اپیل کا حق نہ ہونے کے باوجود سوموٹو کی کارروائی کو ناقص کیوں نہیں قرار دیا جاتا؟

اگر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے تو سوموٹو کے تحت کارروائی بھی کیا آئین کے اسی آرٹیکل سے متصادم نہیں؟

آرمی ایکٹ کے تحت تو پھر وفاقی حکومت فیصلہ کرتی ہے کہ مقدمہ کس کے خلاف چلانا ہے، یعنی مقدمہ چلانے والا الگ ہوتا ہے اور منصف الگ۔ سوموٹو میں تو مدعی ہی منصف اور منصف ہی مدعی ہوتا ہے۔

جج ہی فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں معاملے میں سوموٹو ہونا چاہیے، وہی طلب کرتا ہے اور وہی اس پر فیصلہ بھی کرتا ہے۔ فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہیں ہوتی۔ ایک ناجائز ہے تو دوسرا جائز کیسے ہو گیا؟

آرمی ایکٹ میں تو پھر بھی آرمی چیف کے پاس اپیل کا حق ہے، سو موٹو بھی تو کسی قسم کی اپیل کا حق نہیں ہے۔ اپیل کا حق نہ ہونا فیئر ٹرائل کے اصول کی خلاف ورزی ہے تو اس کا اطلاق سوموٹو پر کیوں نہیں ہوتا؟

آرمی ایکٹ میں ہائی کورٹ میں اپیل کا حق نہ ہونے کے باوجود رٹ کی Jurisdiction (دائرہ کار) میں یہ حق عملی طرز پر موجود ہے لیکن سوموٹو میں تو ایسا کوئی انتظام بھی نہیں ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں کو اگر ’متبادل عدالت‘ قرار دے کر مروجہ عدالتی نظام سے انحراف قرار دیا جا رہے تو سوموٹو میں ملک کی سب سے بڑی عدالت کیا ’ٹرائل کورٹ‘ نہیں بن جاتی؟ آئینی بندوبست میں کیا سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ ہے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ پہلے مرحلے پر آنے والا فیصلہ ہی حتمی قرار پائے؟

آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے تو پھر کچھ شرائط موجود ہیں، جو بہت واضح ہیں، جب کہ سوموٹو کا دائرہ کار بہت وسیع اور مبہم ہے۔ چنانچہ مفاد عامہ کے نام پر کبھی چپلی کباب پر سوموٹو ہو جاتا ہے، کبھی سموسوں کی قیمتوں پر ہو جاتا ہے اور کبھی عتیقہ اوڈھو سے شراب کی مبینہ بوتل کی برآمدگی پر ہوجاتا ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے بارے میں تو بہت حساسیت پائی جاتی ہے اور ملک کے نمایاں قانون دان گلوگیر ہوئے پھرتے ہیں لیکن سوموٹو کے بارے میں پارلیمان ایک طریقہ کار وضع کرتی ہے لیکن پارلیمان کا قانون معطل پڑا رہتا ہے اور کسی قانون دان کا لہجہ گلوگیر نہیں اور کسی کا فیئر ٹرائل پریشان نہیں ہوتا۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

سوموٹو کی گنجائش اگر آئین میں موجود ہے تو فوجی عدالتیں بھی ایک قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قانون بھی پارلیمان نے بنایا ہے اور آئین بھی پارلیمان کا تیار کردہ ہے۔ اگر قانون کا آئین کے آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہونا ضروری ہے تو کیا سوموٹو کا بھی آرٹیکل 10 اے سے ہم آہنگ ہونا لازم نہیں ہے؟

فوجی عدالتیں آرمی ایکٹ کے مطابق کام کرتی ہیں جبکہ سوموٹو کا اختیار آئین میں سپریم کورٹ کے پاس ہے لیکن عملی طور پر یہ اختیار صرف جناب چیف جسٹس کا ہو کر رہ گیا ہے اور سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان اس اختیار کو استعمال نہیں کر سکتے۔ اصلاح احوال کی ضرورت ایک طرف ہے تو کیا دوسری طرف نہیں ہے؟

جس حساسیت سے قانونی حلقے آرمی ایکٹ اور فوجی عدالتوں کے معاملات پرکھ  رہے ہیں اسی حساسیت سے سوموٹو کے معاملات کیوں نہیں پرکھے جاتے؟ سوموٹو پر پارلیمان نے جو قانون سازی کی ہے وہ معطل کیوں پڑی ہے؟ کیا قانون سازی پارلیمان کا حق نہیں؟

ان سارے سوالات کا حاصل پھر یہ سوال ہے کہ ہمارے ان سینیئر قانون دان حضرات کی حساسیت کا تعلق فیئر ٹرائل سے ہے یا ملزمان سے ہے؟ 

کیا کچھ ملزمان جارج آرول کے اینیمل فارم کے ’مور ایکوئل‘ (More Equal) ہوتے ہیں؟

ہم جانتے ہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت پہلے بھی مقدمے چلے اور سزائیں ہوئیں (اور ان سزاؤں کے خلاف اپیلیں بھی ہوئیں) لیکن ہمارے سینیئر قانون دانوں کا لہجہ اس سے قبل کبھی گلوگیر نہیں ہوا۔

یہ  بزرگ قانون دان فیئر ٹرائل کے خواہش مند ہیں یا یہ کچھ خاص ملزمان کے لیے فیئر ٹرائل کے خواہش مند ہیں؟ یہ جو آنکھوں میں تازہ نمی اتری ہے یہ ساون کی ہے یا بھادوں کی؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ