سپریم کورٹ کو بتائے بغیر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو گا: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ اس کیس میں جو بھی ہوگا وہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

چھ اپریل 2022، کی اس تصویر میں اسلام آباد میں واقع سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر(اے ایف پی/عامر قریشی)

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعے کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے مقدمے چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ریماکس دیے کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔

آج چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے سماعت شروع کی تو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کس طریقہ کار کے تحت لوگوں کو فوجی تحویل میں لیا گیا؟

اس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا وہ پہلے عدالت کو فوجی ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتے ہیں، پھر سوالات کے جواب دیں گے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فوجی افسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنا اور فوج کا ڈسپلن خراب کرنا قانون میں درج ہے یا قانون سے اخذ کیا گیا؟

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ آرمی ایکٹ میں درج ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے؟‘

اس پر منصور اعوان نے جواب دیا ’جی، آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

جسٹس آفریدی نے دوبارہ استفسار کیا ’فوجی ہو یا سویلین، کیا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں آنے والے بنیادی انسانی حقوق سے خارج ہوں گے؟‘

اٹارنی جنرل نے کہا وہ تمام سوالات کے جواب دیں گے لیکن پہلے آرمی ایکٹ کی ترامیم کا جائزہ لے لیں۔

جب سویلینز کو آرمی ایکٹ میں شامل کیا گیا

اٹارنی جنرل نے کہا 21 ویں آئینی ترمیم کے بعد سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا قانون عمل میں آیا اور ترمیم سے قبل اس قانون کا اطلاق صرف مسلح افواج پر ہوتا تھا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ جیسے دلائل دے رہے ہیں لگتا ہے اپنی ہی کہی ہوئی بات کی نفی کر رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا ترمیم سے قبل آرمی ایکٹ کے سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ’آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہو گئے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آ رہے ہیں کبھی جا رہے ہیں۔ آپ کے دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔‘

جسٹس عائشہ ملک نے کہا 21 ویں آئینی ترمیم میں ٹرائل میں مجوزہ طریقہ کار دے کر انسانی حقوق کا تحفظ کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا وہ ٹرائل کا طریقہ کار بتانا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا طریقہ کار بتانے کی کیا ضرورت ہے جب بنیادی حقوق کا اطلاق ہونا ہی نہیں؟

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’عدلیہ کی آزادی انصاف کی بنیاد ہے۔ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جا سکتا ہے، اس بارے میں سوچیں۔

’ملٹری ایکٹ کے تحت پراسیکیوشن ہی کیس کا فیصلہ کرے گی اور اپیل بھی وہی سنیں گے۔ 2015 میں جیسے آئین کو پس پشت ڈالا گیا تھا وہ اب نہیں ہو رہا۔ فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف کسی آزادانہ فورم پر اپیل کا حق بنیادی حقوق کی ضمانت ہے۔‘

فوجی عدالتوں میں عام شہری کے خلاف ٹرائل کا طریقہ کار

اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل سے متعلق بتایا کہ فوجی عدالتوں میں سب سے پہلے وقوعے کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے جس کی روشنی میں کمانڈنگ افسر کورٹ آف انکوائری میں واقعے کی مکمل تفتیش کرتا ہے۔

’تفتیش کے بعد سویلینز کو آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 اور 76 کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا شواہد کی سمری کی ریکارڈنگ کے دوران ملزم کو جرح کا حق دیا جاتا ہے، جرح کے بعد آرمی ایکٹ کے رول 19 کے تحت چارج فریم کیا جاتا ہے۔

’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کورٹ تشکیل دیتا ہے اور ملٹری ٹرائل کرنے کے لیے تین افسران کا پینل بیٹھتا ہے، ملزمان کو تمام شواہد اور گواہان پر جرح کرنے کا مکمل حق دیا جاتا ہے۔‘

کیس کی سماعت کے دوران تیز بارش کے باعث کمرہ عدالت میں ججز کو کیس سننے میں مشکل پیش آ رہی تھی، جس کے وجہ سے جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو بلند آواز میں دلائل دینے کی ہدایت کی۔

’ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے‘

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ’ایک کمانڈگ افسر طے کرتا ہے کہ کیس بنتا ہے یا نہیں؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا فوجی ٹرائل کے دوران ملزمان کو وکیل کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے، ملزم فوج کی لیگل برانچ کا افسر یا پرائیویٹ وکیل بھی کر سکتا ہے۔

’آرمی ایکٹ کے مطابق ملزم کو دفاع کا پورا حق دیا جاتا ہے، وہ عمر قید یا سزائے موت کے خلاف کورٹس آف اپیل میں درخواست دائر کر سکتا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا ’ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے‘ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا ملزمان کو اپنے دفاع کا پورا وقت دیا جاتا ہے۔

’آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے۔ سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی سے ہونا لازمی ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا سزائے موت کا موجودہ کیس سے تعلق نہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں سے کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا ’یہ ممنوعہ علاقے کیا ہوتے ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے کہا ممنوعہ علاقے وہ ہیں جن کا ذکر آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا ٹرائل سے پہلے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سزا 14 سال کی بجائے دو سال تک کی ہوگی؟

اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا فوجی عدالت میں عمر قید یا سزائے موت بیرونی سازش میں ملوث ہونے پر دی جاتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا اس کیس میں جو بھی ہوگا وہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا ابھی تک کسی ملزم کا فوجی ٹرائل شروع نہیں ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ’ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا۔ نوٹ کر رہے ہیں کہ کوئی ٹرائل شروع نہیں کیا جائے گا، شواہد ریکارڈ کیے جائیں گے اور ٹرائل کھلی عدالت میں ہو گا۔‘

اٹارنی جنرل نے طریقہ کار پر بات کرتے ہوئے کہا ٹرائل کے دوران ملزمان کے اہل خانہ اور وکلا کو آنے کی اجازت ہوگی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا ملزمان کو سیل میں رکھا گیا ہے یا کمروں میں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا ملزمان کو جیل میں ہی رکھا گیا ہے لیکن دہشت گردوں کی طرح نہیں بلکہ گرفتار افراد کو تمام تر ضروری سہولیات دی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا گرفتار افراد پر دماغی یا جسمانی تشدد نہیں ہونا چاہیے۔

اس دوران جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل نے حکم امتناع کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا جب ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا تو حکم امتناع کیس چیز کا دیں۔

اپیل کا حق دینے پر مہلت کی استدعا

اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کے حوالے سے عدالت سے مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا ’اس معاملے پر بہت محتاط رہ کر غور کی ضرورت ہے۔

’ایسے چلنا ہوگا کہ عالمی سطح پر ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو، میں کچھ چیزوں کا ذکر نہیں کر رہا بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ انہیں کتنا وقت درکار ہے، جس پر انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک ماہ کا وقت دیا جائے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا ایک ماہ بعد تو حکومت ہی نہیں ہوگی، کیا اٹارنی جنرل صاحب آپ نگران حکومت کی طرف سے بھی پیش ہوں گے؟

چیف جسٹس نے کہا ایک مہینے کی مہلت دینے سے متعلق آپس میں مشاورت کریں گے جس کے بعد سماعت کی تاریخ بتائیں گے۔

سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ نے کہا فارمیشن کمانڈرز کے فیصلے کے بعد کون سی فوجی عدالت ہمیں انصاف دے گی؟ چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔

’ہم کسی سابق جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقرر کر سکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہییں اور اہل خانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کا زیر حراست افراد سے متعلق گزشہ حکم برقرار رہے گا۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا ’اس حوالے سے میں آپ کو ان چیمبر بتاؤں گا۔‘

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا اس وقت جو فوجی عدالتوں میں ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا موجودہ دور کو ضیا الحق کے دور سے موازنہ نہ کریں، نہ وہ دور ہے اور ہی وہ حالات ہیں، ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا ہوا اور اگر ملک میں مارشل لا کے حالات بنے تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔

لطیف کھوسہ نے کہا اٹارنی جنرل بہت ماہرانہ طریقے سے کیس لے کر چل رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ کس بدترین طریقے سے فوجی تحویل میں ملزمان کو رکھا گیا ہے۔

’حکومت کو قانون سازی سے کون روک رہا ہے؟ ٹرائل کے لیے قانون میں ترمیم کر کے عدالتیں کیوں نہیں بنا دیتے؟‘ چیف جسٹس نے کہا حکومت چلی بھی گئی تو عدالت حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کر کے جواب لے گی۔

بعد ازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان