فوجی عدالتوں پر فل کورٹ بنانے کی حکومتی درخواست مسترد

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ ہم اس پر غور کریں گے مگر عملی طور پر یہ ممکن نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’وفاقی حکومت خود ایک جج پر اعتراض کر چکی ہے۔ وہ کیس نہیں سن سکتے، پھر فل کورٹ کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ (اے ایف پی)‘

اسلام آباد میں چھ رکنی لارجر بینچ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی فل کورٹ تشکیل دینا ممکن نہیں ہے، ہم اس پر غور کریں گے لیکن عملی طور پر ابھی ممکن نہیں ہے جسٹس اطہر من اللہ بھی بیرون ملک موجود ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں 30 جون کا جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا اور کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ مناسب ہو گا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، میں اس نوٹ کی سپورٹ کرتا ہوں۔ اس لیے مودبانہ گزارش ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔‘

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’وفاقی حکومت خود ایک جج پر اعتراض کر چکی ہے۔ وہ کیس نہیں سن سکتے، پھر فل کورٹ کیسے بنائی جا سکتی ہے؟‘

اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج ہی فل کورٹ تشکیل دینا ممکن نہیں ہے، ہم اس پر غور کریں گے مگر عملی طور پر ابھی ممکن نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ بھی بیرون ملک موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’عدالت کے ہر جج اور ان کے ریمارکس کا احترام کرتا ہوں، جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ میں نے بھی پڑھا ہے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدالت پر اعتماد کی بات کی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیس چھٹیوں میں سنا جا رہا ہے سب جج دستیاب نہیں ہیں، میں نے اسلام آباد میں موجود تمام ججز سے یہ کیس سننے کی درخواست کی تھی، دو معزز جج پہلے ہی دن اعتراض کر کے اٹھ گئے اور ایک پہ حکومت اعتراض کر چکی ہے۔‘

’نو مئی کو سنگین واقعہ تسلیم کرتے ہیں‘

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سب نو مئی کو ایک سنگین واقعہ تسلیم کرتے ہیں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ جرم کے مرتکب کسی شخص کو چھوڑ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کی خوشی ہے کہ آرمی کے زیر حراست افراد کو خاندان سے ملنے دیا جا رہا ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوجی قانون ایک سخت قانون ہے، شہریوں کو تحفظات حاصل ہیں کہ ان کے ساتھ سختی سے نہیں نمٹا جانا چاہیے، لطیف کھوسہ نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا اے ٹی سی میں کیس چلائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے آغاز میں صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے ٹرائل کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتیں کہہ چکی ہیں ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ سوال ہے کہ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا فوجی عدالتوں ٹرائل ہو سکتا ہے۔‘

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اپنا موقف واضح کریں کہ کیا ملزمان کا تعلق جوڑنا ٹرائل کےلیے کافی ہو گا؟ کیا آئینی ترمیم کے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا؟

عابد زبیری نے جواب دیا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ 

چیف جسٹس نے اس موقعے پر کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کا تعلق ٹرائل کے لیے پہلی ضرورت ہے؟ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا، فوج سے اندرونی تعلق ہو تو کیا پھر آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں؟ 

چیف جسٹس نے پوچھا کہ اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟

اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ گزارش یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے۔ نو مئی پر کچھ لوگوں پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوا، کچھ پر نہیں۔ اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشنل نہیں، ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں۔ ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے۔ 

عابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔ اسی دوران وزارت دفاع کے وکیل عرفان قادر نے تین بار روسٹرم پر آ کر بولنے کی کوشش کی مگر چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل نے انہیں روک دیا اور کہا کہ ہم آپ کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں مگر اپنی باری پر سنیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب درخواست گزاروں کے وکلا اس بنچ کے سامنے دلائل مکمل کر چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ عدالت نے سماعت بدھ کو ساڑھے 11 تک ملتوی کر دی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان