پاکستان دل کا ٹکڑا ہے، میانوالی میں مقیم افغان شہری

میانوالی میں مقیم افغان شہری فتح محمد افغانی کا کہنا ہے کہ اگر انہیں پاکستان چھوڑ کر افغانستان جانا پڑا، تو انہیں یوں لگے جیسے وہ اپنا ملک کو چھوڑ کر کسی ایک ملک جا رہے ہیں۔

1979 میں افغانستان پر سوویت یونین (موجودہ روس) کے حملے کے بعد افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔

پنجاب کی تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی کے پہاڑوں کے دامن میں واقع علاقوں کوٹ چاندنہ، ٹولہ منگلی اور کچھ تندرخیل میں مقامی لوگوں سے زمین کرایے پر لے کر دو ہزار ایکڑ رقبے پر ایک مہاجر کیمپ بنایا گیا جسے کوٹ چاندنہ افغان پناہ گزین کیمپ کا نام دیا گیا۔

یہ ابتدائی طور پر ایک خیمہ بستی تھی، بعد ازاں خیموں کی جگہ کچے مکانات نے لے لی اور یہاں افغان پناہ گزینوں کی کثیر تعداد آ کربتدریج بستی رہی جو 1988 میں ایک لاکھ اسی ہزار نفوس تک جا پہنچی۔

انہیں ایام میں افغان پناہ گزین کیمپ میں سرکاری ٹرک گھی، چینی، دالیں اور چاول لے کر آتے تھے یہاں تک کہ آگ جلانے کے لیےلکڑیاں بھی حکومت فراہم کرتی تھی۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مفت راشن سکیم بند ہوئی تو پناہ گزینوں کی بڑی تعداد افغانستان واپس چلی گئی جبکہ پیچھے رہ جانے والے تلاش روزگار کے لیے پورے ضلع میانوالی کے طول و عرض میں پھیل گئے۔

کچھ افغان پناہ گزینوں نے کوٹ چاندنہ کیمپ کے اندر ہی چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنا شروع کردیے اور اس طرح بازار قائم ہو گئے۔ یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ پورے ملک کی طرح ضلع میانوالی کے معاشی خدوخال میں افغاں پناہ گزینوں کے کاروبار کا ایک بڑا حصہ اب بھی موجود ہے جبکہ میانوالی میں ان کی تعداد اس وقت 40 ہزار جبکہ افغان کوٹ چاندنہ کیمپ میں 13 ہزار افغان پناہ گزین آباد ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانیوں کی پہلی نسل کے علاوہ، جن میں سے بیشتر اب عمر رسیدہ ہیں، بالخصوص موجودہ نوجوان نسل کو حکومت پاکستان کی طرف سے حالیہ ماہ کے اختتام تک پاکستان چھوڑنے کی دی جانے والی ڈیڈ لائین کے نتیجے میں پاکستان اور خصوصاً کوٹ چاندنہ کیمپ کو چھوڑنا کافی مشکل لگ رہا ہے۔

کوٹ چاندنہ افغان کیمپ میں آباد رہائشی اور بازاروں میں کاروبار کرتے نوجوان افغان پناہ گزینوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پاکستان کی 40 سالہ میزبانی سے انتہائی خوش اور مطمئن ہونے کے ساتھ حکومت کے شکرگزار بھی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان کوٹ چاندنہ کیمپ میں اس وقت کثیر تعداد میں افغان رجسٹرڈ ہیں اور آج تک وہ حکومتی سطح پر لا اینڈ آرڈر کے لحاظ سے کسی بھی طرح متنازع نہیں رہے ہیں۔ حکومت غیر قانونی اور شرپسند پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی ضرور کرے لیکن پرامن اور عارضی رجسٹرڈ افغانیوں کو مستقل شناختی کارڈ بھی جاری کرے، یا پھر ایسی پالیسی مرتب کرے جو فریقین کے مفاد میں ہو۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ ’اب جیسے بھی حالات ہیں، ہم کیمپ کے انہی کچے گھروں میں اپنے آباؤاجداد اور اپنے بچوں کے ساتھ خوش ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہاں انہیں پرامن ماحول اور تحفظ حاصل ہے، ’افغانستان ہم کیسے جا سکتے ہیں جہاں ہماری زمینوں، کاروبار اور گھروں پر قبضے ہو چکے ہیں؟ اور جہاں نہ تو دیگر کاروبار، تعلیم یا علاج معالجہ ہے اور نہ ہی امن۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان