’افغانستان واپس جانا قبرستان جانے جیسا ہے‘: پاکستان میں ہزارہ برادری

پاکستان کی حکومت نے ملک میں موجود تمام غیر قانونی پناہ گزینوں بشمول 15 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جنہیں ایسا نہ کرنے پر ملک بدر کیا جائے گا۔

آٹھ اکتوبر 2022 کو اسلام آباد میں افغان ہزارہ برادری کے اراکین 30 ستمبر کو افغانستان کی ایک یونیورسٹی میں خودکش بم دھماکے کے خلاف احتجاج کے دوران (اے ایف پی/ عامر قریشی)

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے صادق گذشتہ سال افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان پہنچے تھے کیونکہ ان پر طالبان حکومت کے ارکان نے حملہ کیا اور انہیں مارا پیٹا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 25 سالہ نوجوان کو پاکستان سے بے دخلی کا سامنا ہے جنہیں خدشہ ہے کہ اپنے آبائی ملک واپس جانا ان کے لیے سزائے موت کے برابر ہو سکتا ہے۔

صادق نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح طالبان نے کابل میں ان کے گھر پر دھاوا بولا اور انہیں اغوا کر لیا تاکہ خاندان کے ان دیگر افراد کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں جنہوں نے پچھلی حکومت کے لیے کام کیا تھا۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا: ’ہمارا کابل جانا دفن کرنے کے لیے قبرستان جانے کے مترادف ہو گا۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے اس بار بھاگنے سے پہلے مار ڈالیں گے۔ ان کی نظریں مجھ پر ہیں۔‘

پاکستان کی حکومت نے ملک میں موجود تمام غیر قانونی پناہ گزینوں بشمول 15 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے جنہیں ایسا نہ کرنے پر ملک بدر کیا جائے گا۔

صادق، جو اپنے خاندان کے ساتھ کراچی میں رہائش پذیر ہیں، نے کہا کہ انہوں نے پاکستان سے نکلنے کی کوئی تیاری نہیں کی کیونکہ وہ افغانستان میں اپنا کوئی مستقبل نہیں دیکھ رہے۔

بے دخلی کا منصوبہ طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ اعلان ستمبر میں دونوں پڑوسیوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے بعد سامنے آیا تھا۔

پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ افغان شہری اس سال ایک درجن سے زائد خودکش دھماکوں میں براہ راست ملوث تھے اور ریاست کے خلاف لڑنے والے شدت پسند افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں بہت سے افغانوں کو اپنی آبائی سرزمین پر جلاوطنی کا خدشہ ہے جہاں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق سلب ہیں لیکن صادق جیسے ہزارہ برادری کے لیے خطرات مزید زیادہ ہیں۔

طالبان کے ساتھ داعش بھی ہزارہ کمیونٹی کو مبینہ طور پر ان کے عقیدے کے لیے نشانہ بناتی رہی ہے۔

2001 میں امریکی قیادت میں اتحادی فوج کی جانب سے طالبان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ہزارہ برادری کی زندگی میں کچھ بہتری آئی لیکن 2021 میں طالبان کی دوبارہ حکومت کی اچانک واپسی سے ہزارہ، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور خواتین سمیت لاکھوں افغانوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔

ان میں سے بہت سے لوگ ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران فرار ہوئے جب کہ دیگر نے مغربی ممالک کا رخ کیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ تقریباً ساڑھے 17 لاکھ افغان شہری بغیر قانونی دستاویزات کے ملک میں مقیم ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے کہا کہ اگر افغان پناہ گزین واپس چلے گئے تو انہیں ’ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ‘ ہو گا۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ نان ریفولمنٹ کے بین الاقوامی قانون کی پابندی کریں جس میں اس بات کی ضمانت دی جاتی ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جائے گا جہاں انہیں تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سزا کا سامنا کرنا پڑے۔

امریکہ نے بھی افغانستان کے پڑوسی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحفظ کے خواہاں افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملکوں میں داخلے کی اجازت دیں۔

غیر ملکیوں کی ملک بدری کا حکم ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان سیاسی عدم استحکام اور کم شرح نمو، کمزور کرنسی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے دوچار ہے۔

ہزارہ برادری کی ’نسل کشی‘

افغانستان کے حکمران طالبان نے کہا ہے کہ پاکستان سے افغان باشندوں کی ملک بدری کا منصوبہ ’ناقابل قبول‘ ہے۔ ان کا موقف ہے کہ افغان شہری پاکستانی سکیورٹی خطرات کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے روئٹرز کو بتایا: ’افغان پناہ گزین کو زبردستی اور اتنے مختصر نوٹس پر کیسے واپس بھیجا جا سکتا ہے؟‘

تاہم انہوں نے افغانستان واپسی پر اپنے تحفظ کے بارے میں خدشات ظاہر کرنے والوں کے بارے میں کہا کہ اس حوالے سے مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کی طرف سے ’سراسر پروپیگنڈا‘ پھیلایا جا رہا ہے۔

سہیل شاہین نے کہا: ’زمینی حقیقت بہت مختلف ہے۔ ہم افغان سرزمین میں داخل ہونے والے کسی بھی فرد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ بہت سے ہزارہ اب بھی افغانستان میں رہتے ہیں جن میں سے کئی بڑے سرکاری عہدوں پر بھی فائز ہیں۔‘

لیکن افغان تاریخ میں خونریز حملوں کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادری کو روایتی طور پر رہائش، صحت کی دیکھ بھال، ملازمتوں اور تعلیم تک محدود رسائی حاصل رہی ہے۔

2021 میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ تمام افغان نسلی گروہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا لیکن گذشتہ سال ایک ہزارہ کمانڈر کو مبینہ بغاوت کے الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

کابل میں مقیم ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے عامر نامی شخص کا کہنا ہے کہ ’افغانستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی اب بھی جاری ہے۔ طالبان مختلف بہانوں سے افغانستان کے ہزارہ علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تحفظ کے لیے اپنا پہلا نام ظاہر نہ کرنے والے عامر نے مزید کہا کہ ’یہاں کوئی ہزارہ محفوظ نہیں ہے اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ افغانستان لوٹنے والے ہزارہ کی اکثریت کو قتل نہیں کیا جائے گا۔‘

28 سالہ عامر نے طالبان کی طرف سے مسلسل بدسلوکی کا سامنا کرنے کے بعد بطور گلوکار اور موسیقار اپنا کام ترک کر دیا تھا اور اب وہ ایک چھوٹی کمپنی میں مارکیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یہاں زندگی جہنم کی طرح ہے۔ میری اہلیہ جو خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں، کو بھی اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ اب گھر میں بند ہیں۔‘

ہزارہ برادی کے حقوق کے لیے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے ہزارہ خاندانوں کو ان کے گھروں اور کھیتوں سے بے دخل کیا ہے۔

پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ تقریباً 52 ہزار افغان ڈیڈ لائن سے پہلے ہی ملک سے نکل چکے ہیں۔ جمعرات کو وفاقی نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ڈیڈ لائن کے حوالے سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی جب کہ حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو واپس بھیجنے کے لیے خصوصی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جیوفینسنگ ٹیکنالوجی کو چھپنے والوں کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

پاکستان میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ پناہ گزینوں کو زبردستی افغانستان واپس نہیں بھیجنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک انسانی بحران سے گزر رہا ہے جہاں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی واپسی کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق کے گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ زبردستی بڑے پیمانے پر وطن واپسی سے افغانستان میں سنگین مسائل پیدا ہوں گے جہاں لوگ خوراک کی قلت، خشک سالی اور ملکی معیشت کے لیے اہم غیر ملکی امداد میں تیزی سے کمی کے باعث مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

رواں ماہ مہلک زلزلے سے شمالی صوبے ہرات میں سینکڑوں اموات ہوئیں اور ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا۔

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی پاکستانی سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے کہا کہ ’موسم سرما شروع ہو چکا ہے اور افغانستان زلزلے کے سانحے سے نبرد آزما ہے جب کہ افغان عوام کو اقتدار میں رہنے والی حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔‘

لیکن ہزارہ برادری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی ان کے لیے زیادہ محفوظ نہیں ہے۔

ویزوں یا قانونی شناختی کارڈ کے بغیر ہزارہ خاندان مسلسل نگرانی میں رہنے پر مجبور ہیں، کام اور رہائش تلاش کرنے کے لیے انہیں دوستوں اور رشتہ داروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ہزارہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ جب سے وطن واپسی کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا یا رشوت دینے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ دوسروں کو راتوں رات اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے یا مالک مکانوں نے انہیں گھروں سے نکال دیا۔

گذشتہ سال طالبان کے ہاتھوں اپنے شوہر کے قتل کے بعد کراچی منتقل ہونے والی کیمیا نامی خاتون نے بتایا کہ ’کام تلاش کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ شناختی کارڈ کے بغیر کوئی بھی آپ کو کام نہیں دیتا۔ پانچ مہینے پہلے ایک واٹر فلٹر کمپنی نے میرے بڑے بیٹے کو کام دیا لیکن حکومت کی طرف سے ملک بدری کے اعلان کے بعد انہیں بھی کام سے نکال دیا گیا ہے۔‘

پاکستان نے کہا ہے کہ ملک بدری کا عمل منظم اور مرحلہ وار ہو گا جو ممکنہ طور پر مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں سے شروع ہو گا۔

ہیومن رائٹس واچ کی عہدیدار ہیدر بار نے کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف ہزارہ بلکہ تمام افغان پناہ گزینوں کے لیے ’خطرناک‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے وہ ’ایک جانب کنواں اور ایک طرف کھائی‘ جیسی صورت حال محسوس کر رہے ہیں۔

پاکستان کے اجتماعی بے دخلی کے فیصلے نے طالبان سے فرار ہونے والے افغان صحافیوں، ججوں، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں بھی بے چینی پیدا کر دی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو ’بدترین سطح پر ظلم‘ کا سامنا ہے۔

صادق کی اہلیہ لینا کے لیے بھی یہ ایک خوفناک صورت حال ہے۔ ہزارہ برادری سے ہی تعلق رکھنے والی لینا کابل واپس جانے سے انکار کر رہی ہیں جہاں وہ ایک زمانے میں یونیورسٹی جانے، صادق کے ساتھ آئس کریم پارلر جانے اور شادیوں میں گانے اور رقص کرنے کے لیے آزاد تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کاروبار کرنا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں لیکن مجھے یہاں کام نہیں مل سکتا اور میں یقینی طور پر اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکوں گی اور نہ ہی افغانستان میں کام کر سکوں گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر پاکستان ہمیں زبردستی باہر نکال دے تو ہمارا کیا ہو گا۔ میرے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان