افغانستان سے ویزا لے کر پاکستان سفر کرنے کے خواہشمد افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں ویزا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور ویزے کے حصول کا عمل مشکل ہونے کی وجہ سے بھاری معاوضے کے عوض ایجنٹس کی مدد حاصل کرنی پڑتی ہے۔
حسین (پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں ڈر ہے ان کا ویزا ختم نہ کیا جائے) کا تعلق افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ہے اور حال ہی میں انہوں نے پاکستان کا بزنس ویزا حاصل کیا ہے اور اب پاکستان آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے پہلے خود درخواست سمیت باقی دستاویزات کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں جمع کرائیں لیکن ان کا ویزا مسترد کردیا گیا۔
حسین نے بتایا کہ ’عموما ویزا خود اپلائی کرنے کی صورت میں درخواست گزار سے ضروری دستاویزات لگانے سے رہ جاتی ہیں اور ان دستاویزات کو بنانا مشکل ہوتا ہے تو اسی وجہ سے ویزا مسترد کر دیا جاتا ہے۔‘
تاہم ویزا مسترد ہونے کے بعد حسین نے بتایا کہ انہوں نے ایک ٹریول ایجنٹ کے ذریعے اپلائی کیا اور ٹریول ایجنٹ کو 500 ڈالر (تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار پاکستانی روپے) دے کر سال کا ویزا مل گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک سال اور دو سال بزنس ویزا کی فیس 100 ڈالر ہے لیکن میں نے دو سال ویزا کی فیس ایجنٹ کو 500 ڈالر دی اور مجھے ویزا مل گیا۔‘
نورث (جو صرف دوسرا نام ظاہر کرنا چاہتے ہیں) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے علاج کے غرض سے پاکستانی میڈیکل ویزا کے لیے خود درخواست جمع نہیں کرائی کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ خود درخواست جمع کرانے سے ان کا ویزا مسترد ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ویزا کے لیے درخواست جمع کرانا اور ضروری دستاویزات فراہم کرنا مشکل کام ہے تو اسی وجہ سے ایجنٹ کو 180 ڈالر دے کر ویزے کے لیے درخواست جمع کی اور اب انتظار ہے کہ ویزا لگ جائے۔‘
نور نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی سفارت خانے کو ویزا کے لیے درخواست دینے کا طریقہ کار افغان شہریوں کے لیے آسان بنانا چاہیے۔
کسی بھی ملک جانے کے لیے جس طرح نجی ٹریول ایجنٹس کی خدمات حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح افغانستان میں بھی کیا جاتا ہے اور ان ایجنٹس کا پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے ملک میں موجود تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو انخلا کے لیے دی گئی یکم نومبر کی ڈیڈ لائن قریب ہے ایسے میں بعض افغان شہریوں نے ویزا لے کر پاکستان میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم اس حوالے سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور نگران وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی کہہ چکے ہیں کہ قانونی طریقے سے ویزا لے کر آنے والے غیر ملکیوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جبکہ وزیر داخلہ نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں میں زیادہ تر افغان شہری ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں کو رکھنے والا ملک ہے، جہاں رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد 13 لاکھ تک ہے جبکہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق مجموعی طور پر تقریباً 40 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں آباد ہیں۔
تاہم پاکستان میں رہائش پذیر ان افغان شہریوں میں سے بعض شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں ویزا لینے کو کہا جا رہا ہے لیکن اس میں بہت زیادہ مشکلات ہیں۔
محمد اسلام (فرضی نام) کی پشاور میں ہیئر ڈریسر کی دکان ہے اور وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد براستہ چمن غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے آنے کے بعد جب وہاں معاشی حالات خراب ہوگئے تو غیر قانونی طریقے سے براستہ چمن وہ پاکستان کے شہر کوئٹہ اور پھر پشاور منتقل ہوگئے لیکن اب انہیں پاکستان سے نکالا جائے گا۔
محمد اسلام نے بتایا کہ ’میں پشاور میں رہائش پذیر ہوں لیکن میرے پاس افغان کارڈ ہے اور نہ نادرا کی جانب سے افغان پنا گزینوں کو جاری کردہ پروف آف ریذیڈنس (پی او آر) کارڈ موجود ہے اور یہ (دستاویزات) نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ میں ابھی دو سال پہلے آیا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میری پیدائش پاکستان میں ہی ہوئی ہے لیکن میرے والد کچھ عرصہ قبل اپنا کارڈ کینسل کر کے واپس افغانستان چلے گئے تھے۔ ہم وہاں پر کاروبار کرتے تھے اور وہیں پر رہائش پذیر تھے لیکن بعد میں حالات خراب ہوگئے تو ہم پاکستان آگئے۔‘
اسلام نے بتایا کہ ان کے پاس افغانستان کا پاسپورٹ موجود ہے۔ ’اب میرا ارادہ ہے کہ افغانستان جا کر باقاعدہ طور پر پاکستان کا ویزا لے کر واپس آجاؤں لیکن کابل میں پاکستان کا ویزا لگانا بھی ایک عذاب بن گیا ہے۔
’کابل میں پاکستان کا ویزا لگانے کے لیے باہر بیٹھے ایجنٹس ایک لاکھ تین لاکھ روپے تک لیتے ہیں، جو ہر افغان شہری کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے افغان شہری بغیر ویزے کے یا غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔‘
برطانیہ میں مقیم ایک افغان شہری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد وہ خود برطانیہ میں تھے لیکن ان کا بھائی افغانستان میں پھنس گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی نے برطانیہ جانے کے لیے درخواست جمع کروائی تھی لیکن افغانستان میں ویزا سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان جاکر بائیو میٹرک اور دیگر لوازمات پورا کرنے کو کہا گیا، لیکن پاکستانی ویزا لگوانے میں انہیں مشکلات درپیش تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے مختلف جگہوں پر سفارشیں کیں لیکن پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے ویزا نہیں ملا اور پھر مجبوراً ایجنٹ کو اس وقت دو ہزار ڈالر (اب تقریباً پانچ لاکھ پاکستانی روپے) دے کر ویزا حاصل کرنا پڑا کیوں کہ بھائی کی ویزا اپائنمنٹ تاریخ میں وقت کم تھا۔‘
ایسے کئی افغان پناہ گزین ہیں، جو پاکستانی ویزا لینے کے خواہش مند ہیں لیکن انہیں شکایت ہے کہ فیس نہ ہونے کے باوجود افغانستان میں مختلف ایجنٹس پاکستانی ویزے کی دستاویزات مکمل کرنے کے لیے لاکھوں روپے لیتے ہیں۔
پاکستانی سفارت خانے کا موقف
اس حوالے سے افغانستان میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سفارت خانے کی جانب سے بزنس ویزا کے علاوہ کوئی فیس نہیں ہے لیکن زیادہ تر افغان شہری درخواست جمع نہیں کرا سکتے اور درخواست میں غلطی کی وجہ سے ان کا ویزا مسترد کردیا جاتا ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ مسترد ہونے کے بعد یہی لوگ باہر مختلف ایجنٹس کے ذریعے درخواست جمع کرواتے ہیں، جو ان سے پیسے لیتے ہیں جبکہ سفارت خانے کا ان ایجنٹس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’تعلیم کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ درخواست جمع کروانے میں غلطی کردیتے ہیں تو ان کا ویزا اسی وجہ سے مسترد کیا جاتا ہے اور پھر ایجنٹس ان سے بھاری رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
کابل میں پاکستانی ویزا لینے کا کیا طریقہ کار ہے؟
افغانستان میں پاکستان کے چار قونصل خانے موجود ہیں، جو صوبہ ننگرہار کے مرکزی شہر جلال آباد، مزار شریف، قندہار اور ہیرات میں واقع ہیں اور افغان شہریوں کو پاکستانی ویزا جاری کرنے کے مجاز ہیں۔
کابل میں پاکستانی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق کابل میں افغان شہریوں کو بزنس، ورک، میڈیکل، وزٹ، سٹوڈنٹ اور آفیشل کیٹیگری میں ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق بزنس یا ورک ویزا کے علاوہ باقی کیٹیگریز میں ویزے کی کوئی فیس نہیں ہے، لیکن ویزا کے لیے اپلائی کرنے کے دوران ضروری درخواست کے ساتھ دستاویزات جمع کروانا لازمی ہیں، جن میں افغان پاسپورٹ اور بزنس مین کے لیے پاسپورٹ پر ’بزنس مین‘ کیٹیگری لکھنا لازمی ہے۔
سفارت خانے کے مطابق بزنس مین کیٹیگری میں، سنگل انٹری 30 دنوں کے لیے ویزا کی فیس 100 ڈالر (تقریباً 28 ہزار روپے)، ایک سال کے لیے ملٹی پل انٹری کی فیس 150 ڈالر (تقریباً 42 ہزار روپے) جبکہ ایک سال سے زائد کی ملٹی پل انٹری کی ویزا فیس بزنس مین کے لیے 200 ڈالر (تقریباً 56 ہزار روپے) ہے۔
بزنس مین کیٹیگری کے ویزا کے لیے اپلائی کے دوران ویب سائٹ کے مطابق درخواست گزار کے لیے افغانستان چیمبر آف کامرس کی طرف سے جاری کردہ لائسنس اور رجسٹریشن لازمی ہے۔
پاکستان کے محکمہ پاسپورٹ کی ویب سائٹ پر افغان بزنس مین ویزا کے حوالے سے مزید تفصیلات بھی درج ہیں، جس کے مطابق اگر کسی افغان شہری نے پانچ کروڑ یا اس سے زائد روپے کی سرمایہ کاری پاکستان میں کی ہے اور کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پانچ سال تک ملٹی پل انٹری ویزا جاری کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ویب سائٹ کے مطابق اگر کسی افغان شہری نے دو کروڑ سے پانچ کروڑ تک یا اس سے زیادہ کی سرمایہ کاری پہلے سے کی ہے یا کرنا چاہتے ہے تو انہیں تین سال تک ملٹی پل انٹری ویزا جاری کیا جا سکتا ہے اور افغانستان میں پاکستان مشن اسے جاری کر سکتا ہے۔
اسی طرح افغان طلبہ ’سٹوڈنٹ ویزا‘ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں اور اس کے لیے یونیورسٹی کی جانب سے ایڈمیشن کے ثبوت ویزا درخواست کے ساتھ لگانے لازمی ہیں۔
علاج کے غرض سے پاکستان آنے والے افغان شہریوں کو ویب سائٹ کے مطابق سنگل انٹری ویزا جاری کیا جائے گا جبکہ کسی موذی مرض کے علاج کے لیے ایک سال تک ملٹی پل ویزا بھی جاری کیا جا سکتا ہے، اگر درخواست گزار کے ساتھ ضروری دستاویزات موجود ہوں۔