بلوچستان میں ایرانی تیل کی ترسیل میں کمی، باہر لے جانے پر سختی: حکام

کوئٹہ میں کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کی صوبہ بلوچستان میں درآمد اور استعمال پر پرانی پالیسی برقرار ہے تاہم بلوچستان سے دیگر صوبوں میں ایرانی تیل کی فراہمی پر سختی کی جا رہی ہے۔

بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ پہلے صرف کسٹم اہلکار ایرانی تیل کو بلوچستان سے دیگر صوبوں میں لے جانے سے روکتے تھے لیکن اب حکومت کے تعاون سے ایف سی، لیویز اور پولیس بھی اب اس غیرقانونی کاروبار کو بلوچستان تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کسٹمز کوئٹہ عبدالمعید کانجو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کی شروع دن سے ایرانی تیل پر جو پالیسی تھی اب بھی وہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اب پنجاب یا دیگر صوبوں کے لیے ایرانی تیل لے جانے پر بہت سختی ہے۔ تاہم بلوچستان میں مقامی لوگوں کے روزگار کی خاطر کم پیمانے پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل جاری ہے۔‘

انڈیپنڈنٹ اردو کی ٹیم نے وندر کسٹم چیک پوسٹ کا رات کے وقت دورہ کیا جہاں پر کسٹم اہلکار درجنوں ڈیزل سے بھری بڑی گاڑیوں کو واپس روانہ کر رہے تھے اور وہ گاڑیاں چند کلومیٹر واپس جا کر دوبارہ آگے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

بلوچستان کی نگران حکومت کے ترجمان جان اچکزئی نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ ’سالانہ 60 ارب روپے کا ایرانی پیٹرول پاکستان میں سمگل ہوتا ہے جس کے خلاف نگران حکومت نے کارروائی کا آغاز کیا ہے اور صوبے کے اندر متعدد ایرانی پیٹرول پمپوں کو سیل بھی کیا ہے۔‘

بلوچستان سے دیگر صوبوں میں ایرانی پیٹرول لے جانے والے گاڑی کے ایک ڈرائیور نے بتایا کہ ’ابھی بڑی گاڑیوں پر سختی ہے اس لیے میں نے اپنی گاڑی کھڑی کی ہے اور فی الحال بے روزگار ہوں۔‘

پنجگور سے تعلق رکھنے والے ایک پک اپ ڈرائیور نے بتایا کہ ’ایران سے بلوچستان تک تیل لانے کے مختلف مراحل ہیں سب پہلے ایران سے وہ ڈرائیور بلوچستان میں پیٹرول لاتے ہیں جو سرحدی علاقوں کے رہائشی ہیں کیوں کہ راستوں سمیت ان کو علاقائی تجربات زیادہ ہیں اور لوگ اپنے طریقے سے ایران بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پیٹرول پہنچاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’سرحدی علاقوں میں ایک بار ڈپوؤں میں پیٹرول ذخیرہ ہو جاتا ہے۔ ان سرحدی علاقوں میں ماشکیل اہم پوائنٹ ہے اور پھر یہاں سے پک اپ، ویگن، مزدہ اور دس ویلر جیسی بڑی گاڑیوں میں بھی باقی علاقوں کے لیے پیٹرول ڈیزل بھیجا جاتا ہے۔‘

گوادر کے کسٹم آفیسر سے بات کرنے پر انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، ایرانی تیل کے تمام تر معاملات صوبائی حکومت اور کمشنر مکران ڈویژن دیکھتے ہیں۔‘

کمشنر مکران ڈویژن سعید احمد سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ فی الحال حکومت کی جانب بلوچستان کی حد تک ایرانی تیل پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے بلوچستان میں کسی جگہ کسی بھی علاقے میں اس کا کاروبار کیا جا سکتا ہے اور اس پر کسی قسم کا ٹیکس بھی نہیں ہے مگر بلوچستان سے دیگر صوبوں کے لیے ایرانی تیل لے جانے پر سختی ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو مزید بتایا کہ صوبائی حکومت کے ایرانی تیل کے حوالے سے کچھ اعلیٰ سطح کے اجلاس ہونے ہیں جہاں پر فیصلے کیے جائیں گے کہ اس کو کیسے چلانا ہے۔

ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے عبدالجبار نے اردو انڈیپنڈنٹ سے گفتگو میں کہا کہ ’حکومت ہمسایہ ممالک سے تجارت کے تعلقات کو بہتر طریقے سے سمجھتی ہے لیکن جہاں تک ایرانی پٹرول کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ معاملہ ہے، بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں نہ کوئی کاروبار ہے نہ کاشت کے لیے زمین ہے نہ کوئی فیکٹری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب ایرانی پیٹرول بلوچستان کے راستے سے ملک کے دیگر حصوں میں جانا بند ہوجاتا ہے تو بلوچستان میں ایرانی پیٹرول، ڈیزل سستا ملتا ہے اور اس سے ٹرانسپورٹرز سمیت ہر ایک عام شخص کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

’اب جب حکومت کی جانب سے سختی کی گئی ہے اور بلوچستان سے دیگر صوبوں کے لیے پیٹرول کی ترسیل میں رکاوٹ ہے اس سے 100 روپے فی لیٹر پیٹرول سستا ہوا ہے۔ سب سے بڑی بات، غریب ڈرائیورز ایک شہر سے دوسرے شہر ایرانی پیٹرول منتقل کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔‘

ٹرانسپورٹر عبدالجبار کا کہنا تھا کہ ’یہاں نہ کوئی سرکاری ملازمت ہے، بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ایران بارڈر سے تیل لے آنا اور چند روپے کے منافع پر فروخت کرنا۔‘

خضدار پیٹرول پمپ یونین کے صدر ٹکری محمد بخش مینگل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں ایرانی پیٹرول کے کاروبار سے وابستہ رہا ہوں، بلوچستان میں کاروبار کرنے کے دیگر ذرائع موجود نہیں ہیں، جس کے نتیجے میں حکومت نے ہمیں ایرانی پیٹرول کا کاروبار کرنے کی اجازت دی تھی۔‘

’ہم حکومت کے شکر گزار ہیں۔ ہماری چھوٹی گاڑیاں بارڈر سے پیٹرول ڈیزل لاتی ہیں۔ یہاں چھوٹی گاڑیاں چلتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بلوچستان میں جاری رہے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پہلے ایرانی پیٹرول 250 روپے فی لیٹر تھا، اب غیر قانونی ترسیل بند ہونے سے 190روپے فی لیٹر ملتا ہے اور آئندہ مزید سستا بھی ہونا ہے۔‘

ایرانی پیٹرول پمپ کے مالک آصف کا کہنا تھا کہ ’یہاں پر ایرانی پیٹرول بہت سستا ہوا ہے۔ 280 سے 180 ہوا ہے اور ہم اس بات پر بہت خوش ہیں۔‘

ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ ڈرائیور محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم لوگ گاڑی چلا کر ایرانی ڈیزل کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہم لوگ ایرانی بارڈر کے قریب گوادر، کنڈاڑی سے لوڈ کر کے بلوچستان کے شہرخضدار، بیلہ، اوستہ محمد لے جاتے ہیں۔ ہمیں ابھی کوئی خاص بچت نہیں ہے۔

’پہلے مال سندھ اور پنجاب سپلائی ہوتا تھا۔ جس میں بچت زیادہ تھی۔‘

ایرانی پیٹرول بلوچستان کے عام لوگوں کے لیے ایک بڑا کاروبار ہے۔ اس کاروبار پر ٹیکس نہ ہونے سے حکومت کو نقصان ضرور ہے لیکن اس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت متبادل کاروبار کے مواقع فراہم کرنے کے بعد ہی اس پر پابندی لگانی چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت