آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف امریکی سائفر کیس میں تین گواہان کے بیانات قلمبند کر لیے گئے جبکہ عدالت نے سماعت دس نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے جمعہ کو استغاثہ کے تین مزید گواہان طلب کر لیے ہیں۔
خصوصی استغاثہ شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ’ٹرائل شروع ہو چکا ہے اور ہر ہفتے میں دو سماعتیں اور چھ گواہ پیش ہوں گے۔‘
سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کہتے ہیں کہ جمعہ کو تین گواہان طلب کیے ہیں۔ ’ایسا لگ رہا کہ اسی ماہ چھ گواہان کے بیانات کو مکمل کیا جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آئندہ ہفتے ٹرائل میں تیزی نہیں کی جائے گی۔‘
امریکی سائفر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت منگل کو ساتویں سماعت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کی۔
سائفر کیس میں ہر ہفتے چھ گواہ پیش کیے جائیں گے
سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج تین گواہان کے بیانات بھی ریکارڈ ہو گئے اور ان پر وکلا صفائی کی جرح بھی مکمل ہو گئی ہے۔ سائفر کیس میں گذشتہ سماعت پر جب ایف آئی اے دس گواہان عدالت لے آئے تھے تو یہ طے ہوا تھا کہ ایک سماعت میں تین سے زیادہ گواہ پیش نہیں کیے جائیں گے، اور گواہان کے نام پہلے دیے جائیں گے۔‘
’ہفتے میں دو سماعتیں ہوا کریں گی۔ منگل اور جمعرات کا دن ٹرائل کے لیے رکھا جائے گا جبکہ رواں ہفتے نو نومبر کی چھٹی کے باعث جمعہ کا دن رکھا گیا ہے۔‘
شاہ خاور کا کہنا ہے کہ استغاثہ کے 27 گواہان ہیں، جس میں سے تین ہو گئے باقی 24 رہ گئے ہیں۔ ہر ہفتے چھ گواہ ہوں گے تو ایک مہینے میں گواہان کے بیان اور جرح مکمل ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کے وکلا اس پر اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے عدالت میں بیان حلفی دیا ہے کہ ہفتے میں دو سماعتیں اور ہر سماعت پر تین گواہان پر جرح مکمل کی جائے گی تاکہ عدالت کا وقت ضائع نہ ہو۔‘
شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ’جب 27 گواہان کے بیان اور جرح مکمل ہو جائے گی تو اس کے بعد عدالت دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دے گی جس کا تحریری جواب بھی دینا ہو گا اور عدالت میں بھی بتانا ہو گا۔ اس کے بعد حتمی دلائل ہوں گے جو استغاثہ شروع کرے گی اور یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد عدالت فیصلہ سنا دے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق عدالت میں دیے گیے بیان حلفی اور طے کیے گئے شیڈیول کو اگر دیکھا جائے تو آج سات نومبر کو باقاعدہ ٹرائل کے آغاز کے بعد دسمبر کے اختتام تک اس کیس کا فیصلہ متوقع ہے۔
دوسری جانب عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے سماعت کے بعد اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وزرات خارجہ کے تین گواہان کو پیش کیا گیا، ایک کے بعد ایک گواہ پیش کر کے ایسا لگ رہا ہے کہ سائفر کا ٹرائل بہت تیزی اور جلد بازی سے کیا جا رہا ہے جیسے یہ ایف آئی اے پر بہت بوجھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وزرات خارجہ کے تین گواہان کو پیش کیا گیا، مقدمے کا مدعی وزرات داخلہ ہے۔ وزرات داخلہ کی جانب سے کوئی شکایت کبھی نہیں لگائی۔ گواہان اور پراسیکیوٹر پر بہت دباؤ ہے، دباؤ میں آج بیانات دیے گئے۔‘
بیرسلار سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ’شاہ محمود قریشی کی جانب سے کوئی بات ہوتی تو وزرات خارجہ اس کی مدعی ہوتی۔ سارے الزامات کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے آگاہ کیا۔‘
’عمران خان کے فارن فنڈنگ کیس سمیت زیبا جج کیس زیرو ہو چکا ہے اب صرف سائفر کیس ہی رہ گیا ہے۔‘
ایف آئی اے کے خصوصی استغاثہ شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ استغاثہ کے تین گواہان پر جرح سے قبل وکلا صفائی کی عمران خان اور شاہ محمود قریشی سے ملاقات کروائی گئی اور ملاقات میں استغاثہ کے گواہان کے حوالے سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بریفنگ بھی دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ’ملاقات کے لیے عمران خان کے وکلا اور اہل خانہ نے طویل وقت لیا لیکن استغاثہ نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ملاقات کے لیے خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کر دیا لیکن یہ ملاقات طویل رہی جس کے بعد تین گھنٹے سائفر کیس کی سماعت جاری رہی۔‘
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح سے یہ عدالت کام کر رہی ہے لگ رہا ہے ایک ماہ میں ٹرائل مکمل ہو جائے گا، لیکن ابھی تک جو بھی ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے عمران خان پر مقدمہ نہیں بنتا، اور قابل اعتراض بات یہ ہے کہ یہ ٹرائل بند کمرے میں ایک جیل میں کیوں ہو رہا ہے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’اس ٹرائل کے حوالے سے متفرق درخواستیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہیں اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔‘
عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم کی کارروائی
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر گذشتہ ماہ 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ جس کے بعد 27 اکتوبر کو سرکاری گواہ طلب کیے گئے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے باعث کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔
اس کے بعد 31 اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی جس میں دس گواہوں کو پیش کیا گیا لیکن بیابات قلمبند نہ کیے جا سکے، جس کے بعد عدالت نے سات نومبر کی تاریخ کے لیے کہا تھا کہ ہر حال میں آئندہ سماعت پر بیان قلمبند کیے جائیں گے۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے پہلے 17 اکتوبر اور بعد میں 23 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔ سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو 11 ہفتے ہو گئے ہیں، عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جبکہ ایف آئی اے نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کروایا تھا جس میں انہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز پانچ اور نو کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان ہیں جو پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ درج
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہوا، جس میں انہیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
میسر معلومات کے مطابق آفیشل سکریٹ ایکٹ 1923 کا سو سال پرانا قانون ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں 14 سال قید یا موت کی سزا ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال اور سزائے موت ہے۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’سائفر تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے۔ نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے۔ ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔‘