حالیہ برسوں میں سکیٹ بورڈنگ کا رواج تیزی سے بڑھا ہے، جو انڈیا میں بھی فروغ حاصل کر رہا ہے۔
دہلی میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے سکیٹ بورڈنگ کے پارک بہت محدود ہیں تاہم ان کے کھیل کا سفر شروع ہوچکا ہے۔
انل دھنکر دہلی میں سکیٹ بورڈنگ کے لیے نجی طور پر پارک بنانے والے پہلے شخص ہیں، جو یہاں چھوٹی عمر سے 40 سال تک کے سکیٹ بورڈنگ کے شائقین کو ٹریننگ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا میں یہ کھیل بہت نیا ہے تاہم آنے والوں کچھ سالوں میں یہ کھیل شہرت کی بلندیاں طے کرے گا۔
انل دھنکر بتاتے ہیں کہ دہلی میں سکیٹ بورڈنگ کرنے والوں کے لیے زیادہ متبادل نہیں ہیں۔ ابھی تک حکومت نے بھی سکیٹ بورڈنگ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ دہلی میں صرف دو پارک ہیں، ایک آوٹ ڈور اور ایک انڈور۔ آوٹ ڈور پارک وہ خود سینک فارم میں چلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے ذاتی جگہ پر چھوٹے پارک بنا رکھے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دہلی میں ایک تو دہلی سکیٹ بورڈنگ اکیڈمی ہے، جس کے پاس انڈور سکیٹ پارک ہے اور ایک ان کے پاس ہے، ’بیک یارڈ سٹیک پارک‘ جو کہ آوٹ ڈور پارک ہے۔
’اس کے علاوہ دہلی میں دو جگہیں ایسی ہیں جہاں سکیٹ بورڈ کے کھلاڑی جمع ہوتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔ ایک ہے ڈیئر پارک اور ایک منڈی ہاؤس میٹرو سٹیشن۔ ان دو مقامات پر کھلاڑی واٹس گروپ میں پلان کرکے جمع ہوتے ہیں اور سکیٹ بورڈنگ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انل کے مطابق یہ کھیل چونکہ نیا ہے مگر بچوں اور بچیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
’یہ بچے جب بورڈ پر سواری کرتے ہیں تو ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ ہوتی ہے، وہ قابل دید ہوتی ہے۔ یہ کھیل ان کھیلوں میں سے نہیں جن میں دوسرے ارکان کی پرفامنس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک انفرادی کھیل ہے۔‘
دھنکر اس کھیل سے جڑنے کی کہانی بتاتے ہیں: ’میں اس کھیل میں اپنے بچوں کی وجہ سے آیا ہوں۔ میرے دو بچے ہیں، جو الگ سپورٹس میں تھے، مگر کورونا کی وجہ سے وہ سکیٹ بورڈنگ کرنے لگے اور اسی سے جڑ گئے۔
’مجھے حیرت ہوئی ہے کہ دہلی میں حکومت کی جانب سے ایک بھی سکیٹ پارک نہیں بنایا گیا اور کوئی سہولت نہیں ہے۔ تاہم مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ یہ کھیل اتنا نیا ہے کہ وہ کہاں سے سہولیات دے پائیں گے۔ یہ بس فیڈریشن تک ہے۔ ہم نے ذاتی کوششوں سے ایک سکیٹ پارک بنایا، جہاں اب ہم چھوٹے اور بڑے بچوں کو فیس لے کر ٹریننگ دیتے ہیں۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں یہ کھیل تھوڑا مہنگا ہے۔
’اس کھیل میں پیسہ لگتا ہے۔ زیادہ خرچہ سکیٹ بورڈ پر آتا ہے، گارڈز اور جوتوں پر آتا ہے۔ گارڈز اور ہیلمیٹ پر ایک بار خرچہ ہوتا ہے مگر جوتے اور سکیٹ بورڈ یہ بار بار خراب ہوتے ہیں۔ ہر دو ماہ یا تین ماہ میں چھ سے سات ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔‘
انل دھنکر نے سکیٹ بورڈ سے متعلق کھیل کے سامان کی قلت فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پہلے ’ڈی کیتھلون‘ ایک واحد ذریعہ تھا جہاں سکیٹنگ سے متعلق سامان پر انحصار کرنا پڑتا تھا، دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا جہاں سے سامان خریدا جائے۔
’تاہم دھیرے دھیرے دیگر دکانیں آئی ہیں، جیسے پیسو اور ڈینکی ہیں۔ پھر سکیٹ سپلائی انڈیا ہے۔ اور بھی کئی ذرائع ہیں۔ مگر کسی کی مینوفکچرنگ انڈیا میں نہیں ہے، سب لوگ یا تو امریکہ سے یا چین سے درآمد کرتے ہیں، پھر یہاں بیچتے ہیں۔ ابھی انڈیا اس میں پیچھے ہے کیونکہ یہاں کچھ بھی نہیں بنتا نہ سکیٹ بورڈ نہ اس کے پارٹس۔ اسی وجہ سے یہ چیزیں یہاں مہنگی ملتی ہیں۔‘
ان کے مطابق، ’سکیٹ بورڈ گیم میں امریکہ، برازیل، کچھ یوروپین ممالک جیسے فرانس اور جاپان یہ ایڈوانس سطح پر ہیں۔ آسٹریلیا بھی اچھا کر رہا ہے۔ انڈیا کے پڑوس میں دیکھیں تو چین اچھا کر رہا ہے، عالمی سطح پر آگے نہیں بڑھا مگر انڈیا سے بہتر کر رہا ہے۔
’پاکستان میں مجھے نہیں لگتا ہے کہ گیم ہے ابھی۔ کچھ نیپال میں ہیں جو مقابلوں میں شرکت کرنے انڈیا آتے ہیں۔ انڈیا کے سکیٹ بورڈرز کی سطح دھیرے دھیرے بہتر ہورہی ہے۔ اس بار ایشین گیمز میں انڈیا سے کچھ سکیٹ بورڈرز کھیلنے جارہے ہیں۔‘