​​​​​​​کھیل تو اب شرطیہ شروع ہونا ہے

اگر ان مفروضوں کو درست مان لیا جائے کہ واقعی مقتدرہ اس دفعہ نواز شریف کو ہی وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے تو اس کی مدد کے ابھی تک اس طرح واضح آثار نظر نہیں آئے جس طرح 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں نظر آئے۔

میاں محمد نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو لاہور کے گریٹر اقبال پارک میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں (مسلم لیگ ن فیس بک)

آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کا نتیجہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ابھی سے نکال کر نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنا دیا ہے۔

خود ن لیگ کا انتخابی نعرہ یہی ہے کہ نواز شریف اگلے وزیراعظم ہیں لیکن پیپلز پارٹی تحریک انصاف اور جے یو آئی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگلے وزیراعظم نوازشریف ہیں۔

فرق صرف یہ ہے کہ باقی جماعتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ نواز شریف کو وہی قوتیں وزیراعظم بنوا رہی ہیں جنہوں نے ان کو اقتدار سے بے دخل کر عمران خان کو وزیراعظم بنوایا اور ان کے نزدیک 2018 اور 2024 کے انتخابات میں واحد فرق یہ ہو گا کہ 2018 میں کس طریقے سے خان کو وزیراعظم بنوایا گیا، 2024 میں طریقہ وہی، صرف وزیراعظم نوازشریف کو بنوایا جائے گا۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک مضبوط دھڑے کی نون لیگ میں شمولیت سے یہ تاثر مزید ابھارا گیا کہ ن لیگ اب کنگز پارٹی ہے اور اشارے پر چلنے والے زیادہ تر سیاستدان اسی پارٹی کا رخ کر رہے ہیں۔

اگر ان مفروضوں کو درست مان لیا جائے کہ واقعی مقتدرہ اس دفعہ نواز شریف کو ہی وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے تو اس کی مدد کے ابھی تک اس طرح واضح آثار نظر نہیں آئے جس طرح 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں نظر آئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں تخت اسلام آباد پر وہی جماعت براجمان ہو گی جو پنجاب کا معرکہ سر کرے گی۔

جس طرح جہانگیر ترین جہاز بھر بھر کر پی ٹی آئی میں شامل کروا رہے تھے، پنجاب میں وہ جہاز ابھی تک نون لیگ کو میسر نہیں آیا۔ فی الحال ہیلی کاپٹر کی اڑان ہو رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کی سیاست سے توبہ تائب کرنے والے سیاست دان سیدھا جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی سے لانچ ہو رہے ہیں۔

اگر کوئی غیبی مدد ہو رہی ہے تو اس کا فائدہ اسی جہانگیر ترین کو پہنچ رہا ہے جس نے پروجیکٹ عمران خان کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ نون لیگ 2018 کے مقابلے میں اپنے مضبوط قلعے پنجاب میں اتنی مقبول نہیں جتنی اس وقت مضبوط تھی۔ پنجاب میں شمولیتیں بھی دھڑا دھڑا استحکام پارٹی میں ہو رہی ہیں۔ پنجاب کا یہ حال ہے تو مقتدرہ اگر چاہے بھی تو نواز شریف کو کیسے وزیراعظم بنوائے گی؟

خود نون لیگ کی قیادت کا یہ حال ہے کہ ان کے سوا باقی تمام جماعتیں کارکنوں کے اجتماعات اور جلسوں کا آغاز کر چکی ہیں، نون لیگ ابھی تک اسی پر اکتفا کر رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف کو اگلا وزیراعظم مان چکی ہیں تو پھر خاموشی سے کیوں نہ آٹھ فروری کی شام اس اعلان کا انتظار کیا جائے کہ ’وزیراعظم نواز شریف!‘

اس وقت بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہلچل شروع ہو چکی ہے، شمولیتیں ہو رہی ہیں لیکن پنجاب کا سیاسی میدان ابھی کھلا پڑا ہے۔ پنجاب میں سکڑتی ہوئی تحریک انصاف کا زیادہ تر ووٹ بینک نواز شریف مخالف ووٹ بینک تھا جو تاریخی طور پر ن لیگ کے خلاف پڑتا رہا ہے۔

استحکام پارٹی انتھک کوشش کے باوجود تحریک انصاف کے ووٹر کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکی ہے اورچند الیکٹیبلز کے شامل ہونے سے الیکشن جیتنے کا خواب جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے زیرک سیاستدان دیکھنا پسند بھی نہیں کریں گے۔ تو پھر ہو گیا کیا؟

اس وقت سب سے زیادہ اگر کسی سیاسی جماعت کے مفادات اور مستقبل داؤ پر لگے ہوئے ہیں تو وہ نون لیگ ہے۔

کنگز پارٹی کا تاثر لے کر انتخابات میں اترنا پنجاب کی سیاست میں ترپ کا پتہ سمجھا جاتا ہے اور ایسے میں بیانیے کی جنگ ہار کر انتخابات بھی ہار جانا نون لیگ کے لیے ایسا جھٹکا ہو گا جس سے سنبھلنا آسان نہیں ہو گا۔ لہٰذا ہر قیمت پر جیتنا اور نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنوانا ہی نون لیگ کا اصل قلیل مدتی مقصد ہے جس کے لیے ان کی  تیاری فی الحال نظر نہیں آرہی ہے۔

اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ اول تو یہ کہ نواز شریف کے قانونی معاملات کا انتظار کیا جائے جن کا فیصلہ جلد سامنے آ جائے گا اور دوسری یہ کہ نون لیگ ضرورت سے زیادہ پراعتماد ہو چکی ہے۔ پنجاب کے زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ نون لیگ کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔

یہ بات درست ہے کہ نواز شریف صاحب پنجاب میں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے ماہر ہیں لیکن آج حالات بہت بدل چکے ہیں، ن لیگ کی لیڈر شپ مانے یا نہ مانے لیکن آج پارٹی کو اپنے بنیادی ووٹر اور سپورٹر کو بھی دوبارہ اپنی طرف مائل کرنے کا سنگ میل عبور کرنا ہو گا، ساتھ میں اس پراپیگنڈے کا بھی جواب دینا ہوگا کہ نواز شریف فوج کی مدد سے اقتدار میں آ رہے ہیں اور ان کی پارٹی کو ’اپر ہینڈ‘ دینے کے لیے باقی سیاسی جماعتوں کا راستہ روکا جا رہا ہے۔

فی الحال یہ تاثر تیزی سے اس لیے بھی ابھر رہا ہے کہ سوائے چند ایک کے، نون لیگ کے زیادہ تر رہنما ٹاک شوز سے غائب ہیں یا ان کی شرکت بہت ہی کم ہو چکی ہے۔

اس بڑے اعتراض کا جواب نون لیگ کو خود ہی اور ہر حال میں دینا ہو گا کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کو کیا چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نون لیگ کو ایک اور بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس تاثر کو تقویت تحریک انصاف کے اعتراضات کی وجہ سے نہیں بلکہ نون لیگ کی اپنی حلیف جماعتوں پیپلز پارٹی، جے یو آئی اور بی این پی کے تلخ بیانات سے مل رہی ہے۔

اگر یہ جماعتیں صبح شام یہ بیانات دیں کہ نواز شریف صاحب کو لاڈلا بنا کر کندھوں پر چڑھا کر وزیراعظم ہاؤس پہنچانے کا منصوبہ بن رہا ہے اور جواباً نون لیگ یہ کہے کہ ہماری قیادت نے حلیف جماعتوں کو تلخ جواب دینے سے منع کیا ہے تو پھر کیا سمجھا جائے؟

گذشتہ کئی ماہ سے انہی سطور میں کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ سیاسی حالات جس طرف جا رہے ہیں ان میں نوشتہ دیوار یہ ہے کہ نوازشریف اگلے وزیراعظم ہوں گے، لیکن نون لیگ شاید یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ آٹھ فروری گزر چکا ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بس ان کی فتح کا اعلان کرنا باقی ہے۔

انتخابات کی تیاری سے لے کر، فوج کی مدد سے اقتدار میں آنے تک، کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے ابھی نون لیگ نے بڑے بڑے امتحانات اور چیلینجز سے گزرنا ہے۔

پاکستانی سیاست ممکنات کا ایسا کھیل ہے جس میں ایک شام وزارت عظمیٰ کے آنگن میں چہل قدمی کرنے والی اگلی شام چھ بائے چار کے سیل میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں کچھ بھی مستقل نہیں اور کچھ غیر متوقع نہیں اور کون نہیں جانتا کہ زرداری صاحب پاکستان کے سیاسی میدان کے ایسے کھلاڑی ہیں جو ہاری ہوئی بازی جیت سکتے ہیں۔

اور اگر جیت سے کوسوں دور بھی ہوں تو میچ برابر کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ