جرمنی نے پیر کو کولون کی ایک مسجد میں ہونے والی تقریب میں طالبان عہدے دار کی شرکت کی مذمت کی ہے جب کہ وزیر داخلہ نے مسجد کی منتظم ترک تنظیم سے اس سلسلے میں وضاحت طلب کر لی ہے۔
عبدالباری عمر جو افغانستان میں طالبان کے زیر انتظام ہیلتھ اتھارٹی کے اہلکار ہیں جو کولون میں افغان تنظیم کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے مسجد میں گئے۔
جرمنی کی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا کہ ’کولون میں طالبان کے نمائندے کی موجودگی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی انتہا پسند اسلام پسندوں کو جرمنی میں پلیٹ فارم فراہم نہیں کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے شہر میں خورویلر کے علاقے میں مسجد کا انتظام سنبھالنے والی ترک اسلامک ایسوسی ایشن دیتب پر زور دیا کہ وہ وضاحت کرے کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ جگہ کو اس طرح استعمال کیا جائے۔‘
دیتب کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں طالبان عہدے دار کی آمد کے بارے میں پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔
تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اصل معاہدے کے برعکس تقریب کو سیاسی تقریب میں تبدیل کر دیا گیا اور ایک ایسے مقرر کو مدعو کیا گیا جنہیں ہم نہیں جانتے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترک تنظیم نے طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کی قربت یہاں تک کہ روحانی قربت کو بھی مسترد کردیا ہے۔‘
جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان عہدے دار کو جرمنی میں داخل ہونے کے لیے ویزا جاری نہیں کیا گیا تھا۔
وزرت خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بظاہر وہ ’پڑوسی ملک‘ کے جاری کردہ شینگن ویزا پر جرمنی کا سفر کرنے میں کامیاب رہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ عمر نیدرلینڈز سے آئے جہاں انہوں نے نومبر کے اوائل میں عالمی ادارہ صحت کی ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے مغربی ملکوں نے افغانستان اربوں ڈالر کی امداد اور اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس اقدام کو امداد پر انحصار کرنے والی افغان معیشت کے لیے ’غیر معمولی مالی دھچکا‘ قرار دیا ہے۔
ترک اسلامک یونین برائے مذہبی امور دیتب جرمنی کی سب سے بڑی اسلامی تنظیموں میں سے ایک ہے۔