برٹش پاکستانیوں کی سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لیے سرگرم بزنس مین

لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کی اس واڈکاسٹ میں پاکستانی اور جنوبی ایشیائی نژاد شخصیات کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر گپ شپ کی جاتی ہے۔

آصف رنگون والا کی آج کل زیادہ توجہ سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں پر رہتی ہے۔ (فوٹو: بی پی ایف)

’بن مین‘ یعنی بن والا آدمی۔ یہ نام ملا آصف رنگون والا کو، جو تعلیم ادھوری چھوڑ کر کراچی سے برطانیہ منتقل ہوئے۔کراچی کے معروف کاروباری خاندان سے تعلق ہے لیکن خاندانی کاروبار چھوڑ کر گئے اور اپنے بل بوتے پر برطانیہ میں برگر بن اور ہاٹ ڈاگ رول بنانے کی فیکٹری لگائی۔

نو سال کے عرصے کے بعد، ملک میں 80 فیصد برگر بن، آصف رنگون والا کی فیکٹری سے سپلائی ہونے لگے۔ برطانیہ کے تین سرفہرست اور یورپ کے دس سرفہرست سپلائرز میں شمار ہوئے۔ کے ایف سی جیسے عالمی برینڈز ان سے برگر بن خریدتے تھے۔ تقریباً 15 سال قبل بیکری مصنوعات کی فیکٹری بیچنے تک انہیں ’بن مین‘ کہا جاتا رہا۔

آصف رنگون والا لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کی واڈکاسٹ ’ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز‘ کے مہمان بنے جس میں انہوں نے برطانیہ میں پلنے بڑھنے والے برٹش پاکستانیوں کے سیاسی مستقبل میں کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا۔

آج کل آصف رنگون والا ہاؤسنگ کے شعبے سمیت چند دیگر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کی زیادہ توجہ خیراتی اور سماجی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں پر رہتی ہے۔

واڈکاسٹ کے میزبانوں مِم شیخ اور علی حمزہ سے گپ شپ کے دوران انہوں نے بتایا کہ سماجی فلاح و بہبود کی تربیت انہیں اپنے والد سے ملی جو ’لوگوں کو پیسہ کمانے کی خاطر ہنر سکھانے کے قائل تھے، نہ کہ انہیں پیسہ دینے کے۔‘ اسی مشن کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 11 سال قبل برٹش پاکستان فاؤنڈیشن (بی پی ایف) کی بنیاد رکھی۔

بی پی ایف کا ابتدائی منشور پاکستان کے سماجی اور معاشی مفادات کے لیے کام کرنا تھا۔ ڈیڑھ سال بعد ہی انہوں نے خود ٹرسٹ کے اراکین کو منشور بدلنے پر قائل کیا کیوں کہ بقول ان کے ’آپ ان لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے جو اپنی مدد آپ نہ کر پائیں۔‘ چنانچہ بی پی ایف نے برٹش پاکستانیوں کی نئی نسل کی فلاح و بہبود کا منشور اپنا لیا۔

میزبان مِم شیخ کو بھی کرونا کی وبا کے دوران ایک ڈاکومنٹری کے لیے بی پی ایف نے سپانسر کیا۔ آصف رنگون والا کے مطابق بی پی ایف کے ذریعے وہ، برٹش پاکستانی کمیونٹی کو متحد کرنے اور نوجوانوں کا سماجی، معاشی اور سیاسی مستقبل بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فاؤنڈیشن کا مشن ہے کہ برٹش پاکستانیوں کی پرطانوی پارلیمان میں نمائندگی کو بڑھایا جائے۔ آصف رنگون والا کے مطابق، پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کو پارلیمان میں سات سے آٹھ فیصد رکنیت حاصل کرنا ہو گی، ’تب ہمارے بچوں کو یہ کہنے کی وجہ ملے گی کہ میں وزیراعظم بننا چاہتا ہوں۔ کابینہ کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ پارلیمانی رکنیت بڑھانے سے برٹش پاکستانی کمیونٹی کو انڈین، کیریبیئن اور یہودی کمیونٹی جیسا اثر و رسوخ اور حقوق مل سکیں گے۔

بی پی ایف کے ذریعے برٹش پاکستانیوں کے لیے سیاسی میدان کی راہیں ہموار کرنے کے علم بردار کا کہنا ہے کہ وہ خود سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ پس پردہ رہتے ہوئے، اپنے تجربے اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو آگے لائیں گے۔

ایک کپ چائے کراسنگ کلچرز، انڈپینڈنٹ اردو کی لندن سے واڈکاسٹ ہے جس کا مقصد برطانیہ میں پاکستانی اور جنوبی ایشیائی نژاد شخصیات کی کامیابیوں کی داستانوں کو اجاگر کرنا ہے۔ واڈکاسٹ میں جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کی ثقافتی شناخت کی بُنت پر ہلکی پھلکی گپ شپ کی جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا