کیا جی ڈی اے پیپلز پارٹی کو مشکل وقت دے پائے گی؟

دو سابق وزرائے اعلیٰ کی شمولیت کے بعد کیا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے؟

کراچی میں پیر پگارا کی قیادت میں بدھ کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے اجلاس میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور سابقہ ایم این اے راحیلہ مگسی نے جی ڈی اے میں شامل ہونے کا اعلان کیا (تصویر: مسلم لیگ فنکشنل)

سندھ کے دو سابق وزرا اعلیٰ کا صوبے میں پاکستان پیپلز پارٹی مخالف اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شمولیت پر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں اتحاد کا سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دینے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

کراچی میں پیر پگارا کی قیادت میں بدھ کو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے اجلاس میں سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور سابق ایم این اے راحیلہ مگسی نے جی ڈی اے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔

اجلاس میں دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جن میں سے ایک کمیٹی مختلف سیاسی شخصیات سے ملاقات کر کے انہیں جی ڈی اے میں شمولیت کی دعوت دے گی جب کہ دوسری کمیٹی ہم خیال سیاسی جماعتوں سے مشاورت اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گی۔

عام انتخابات کے دوران کیا اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے؟

اس بارے میں سینیئر سیاسی تجزیہ نگار اور کالم نگار سہیل سانگی کہتے ہیں کہ ’سندھ میں پی پی پی مخالف یہ اتحاد نیا نہیں۔ 2008 کے عام انتخابات اور اس سے قبل بھی سندھ میں چھ جماعتی اتحاد سمیت کئی اتحاد بنے، مگر یہ اتحاد پی پی پی کے لیے مشکل حالات پیدا نہیں کر سکے۔ ‘

سہیل سانگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم پہلے بھی اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ رہے اور جب پاکستان تحریک انصاف کا پلڑا بھاری دیکھا تو ارباب غلام رحیم نے پی ٹی آئی جوائن کر لی اور اب دوبارہ جی ڈی اے میں واپس آگئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ اتحاد ہر بار انتخابات سے قبل بنتے ہیں اور روز مرہ کی سیاست میں سرگرم نہ ہونے کے باعث الیکشن میں موثر نہیں ہوتے۔

’اتحاد میں شامل لیاقت جتوئی کے علاوہ باقی شخصیات کی اپنی نشست بھی نہیں باقی نہیں رہی۔ ارباب غلام رحیم کے آبائی علاقے تھر میں پی پی پی اتنی پراعتماد ہے کہ بلاول بھٹو نے ابھی سے یہ کہہ دیا ہے کہ الیکشن ورک کے لیے بھی تھر نہیں آئیں گے۔‘

کالم نگار سہیل سانگی کہتے ہیں کہ ’جب ارباب غلام رحیم پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سندھ امور بنے تو تھر کے لوگوں نے تھر میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا مگر وہ پورا نہ ہوسکا۔ ایسی صورت میں عوام کیوں ووٹ دیں گے؟‘

سہیل سانگی کے مطابق جی ڈی اے کو کراچی کی کچھ نشستوں پر ووٹ مل سکتا ہے البتہ لاڑکانہ میں مسلم لیگ (ن)، جمعیت علما اسلام کے ساتھ مل کر جی دی اے پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ 

اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں اس وقت پیر پاگارا کی مسلم لیگ (فنکشنل)، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، سید زین شاہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور صفدر عباسی کی پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ جی ڈی اے میں وہ سیاسی شخصیات شامل ہیں جن کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں بلکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث اپنے علاقوں میں الیکشن لڑتے ہیں۔ ان میں ارباب غلام رحیم، ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، لیاقت جتوئی شامل ہیں۔

سندھی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن اور تجزیہ نگار فیاض نائچ کے مطابق جے ڈی اے میں شامل ہونے والے دو سابق وزرا اعلیٰ یا دیگر شخصیات کا اثر و رسوخ ان کے اپنے علاقوں تک محدود ہے اور ان کا اتحاد میں شامل ہونے کے باجود وہ اتحاد میں دیگر شخصیات کو ان کے حلقوں میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں دے سکتے۔

انڈپینڈنٹ اردو گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا کہ ’ارباب غلام رحیم کے جی ڈی اے میں شامل ہونے سے وہ پیر پاگارا یا ذوالفقار مرزا کو ان کے حلقوں میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں دے سکتے۔ اس لیے یہ اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں کوئی خاص مشکل وقت نہیں دے سکتے۔‘

’اس اتحاد میں شامل شخصیات اس سے پہلے بھی پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑتے رہے ہیں، اس بار بھی کوئی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست