آر ایس ایس کتنی شدت پسند ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو کی نئی سیریز ’آخر یہ ہے کیا؟‘ میں بھارتی شدت پسند جماعت آر ایس ایس کی تفصیلی تاریخ بیان کی گئی ہے۔

ہندو رضاکار تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (قومی رضاکاروں کی تنظیم) یا آر ایس ایس کو وزیر اعظم عمران خان مسلسل ایک دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیم کے طور پر پیش کر رہے ہیں بھارت میں بھی متنازع یہ تنظیم آخر کتنی شدت پسند ہے؟ ایک جانب تو اسے ثقافتی تنظیم کہا جاتا ہے جس کا مقصد بھارت کی اخلاقی اور روحانی روایات کا تحفظ ہے تو دوسری جانب اسے انتہا پسند جنونی ہندوؤں کا گروپ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن عمران خان اس کا نازی جرمنی کے ہٹلر سے موازنہ کرتے ہیں۔

1925 میں ناگپور کے ایک براہمن ڈاکٹر کیشو بلی رام ہیڈگوار کی قائم کردہ اس تنظیم کا مقصد ہندؤں کو ذہنی اور جسمانی طور پر اپنے تحفظ کے قابل بنانا تھا۔ 1920 کے اوائل میں ناگپور میں نسلی تشدد نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس تنظیم کے رضا کاروں کو باقاعدد دفاع کی تریبیت دی جاتی ہے۔ اس کے قیام کے بعد ہندو مسلمانوں کے خلاف جھگڑوں میں زیادہ تیار دکھائی دیئے۔ مسلمانوں کی جانب سے پاکستان کے مطالبے نے اس تنظیم کی ہندو قوم پرستی کو اور توانا کیا جو ہندوستان کو ہندوؤں کی سرزمین قرار دیتی ہے۔

تقسیم ہند کے 1946 سے لے کر 1947 کی خزاں کے دوران افراتفری، بےیقینی، مشکلات اور نفرتوں کے دور میں اس تنظیم نے اسلام مخالف بینر کے نیچے ہندو نوجوانوں اور دیگر شہریوں کو بڑی تعداد میں اپنی جانب متوجہ کیا جنہوں نے اس کی بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ اس تنظیم نے ہندوؤں کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جین اے کوران جونیئر نے 1950 میں لکھے ایک مضمون میں کہا کہ آر ایس ایس کی ان حالات میں سرگرمیاں محض دفاعی نہیں تھیں۔ ایم ایس گوالیکر نے 1938 میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں کہا تھا کہ ’اگر ہندوں مضبوط ہوتے ہیں تو مسلمان دوستوں کو جرمنی کے یہودیوں کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ غیرہندؤں یا تو ہندو ثقافت اور زبان اپنا لیں اور ہندو مذہب کی عزت کریں۔‘

’مہا بھارت‘ کی تقسیم کے فورا بعد پاکستان کو تسلیم کرنے پر مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کو اس نے تنقید کا شدید نشانہ بنایا۔

گاندھی کے قتل میں اس کا ہاتھ کتنا؟

اس کڑی تنقید کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہاتما گاندھی کے مخالفین اس حد تک بھڑکے کہ وہ ان کی جان لینے کو تیار ہوئے۔ ان میں سے ایک نتھو رام گوڈسے نے 3 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کو مسلمانوں کی علیحدہ ملک کے مطالبے کے حمایت کی وجہ سے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ خیال ہے کہ نتھو رام آر ایس ایس 1932 میں شمولیت اختیار کی تھی۔ 1940 میں تاہم انہوں نے اپنی ایک تنظیم ہندو راشٹرا دل قائم کی۔ انہوں نے آر ایس ایس کو خیرباد کہا ہی اس وجہ سے تھا کہ ان کے مطابق وہ تقسیم ہند کے مسئلے پر نرم پڑ رہی تھی۔ گاندھی کی ہلاکت کے بعد یہ تنظیم زیر عتاب آئی اور 4 فروری 1948 کو بھارتی حکومت نے آر ایس ایس کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ کئی اعلی ذمہ دار افراد نے آر ایس ایس پر اس قتل کا براہ راست الزام عائد کیا۔ کئی لوگ مانتے ہیں کہ یہ قتل آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں کے پروپیگینڈے کا نتیجہ تھا۔

اس تنظیم نے 1949 میں پابندی کے خاتمے کے لیے اپنا آئین لکھا جس کی شق 3 اور 4 میں اپنی مذہب اور ثقافت کی بحالی کے لیے پرامن اور قانونی طریقے سے کوشش کرنے کا عہد شامل تھا۔ لیکن اس تنظیم کے ہفتہ اور ماہوار شائع والے مواد میں تنگ نظری اور عدم برداشت واضح تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اس کی بھارتی مسلمانوں پر خصوصی نظر رہی۔ بھارتی مسلمانوں کو یہ تنظیم اپنے ادبی مواد میں اکثر ناقابل اعتبار قرار دیتی رہی ہے۔ انہوں نے قوم پرست مسلمان رہنماؤں مولانا ابوالکلام آزاد اور رفیع احمد قدوائی پر دینی تعلیم پر زور دینے کی وجہ سے غدارانہ سرگرمیوں کے الزام بھی عائد کئے۔

اس تنظیم کے عوامی اور نجی قول و فعل میں کافی فرق دیکھا گیا ہے۔  اس فرق کا بہترین ثبوت آر ایس ایس کے دوسرے رہنما ایم ایس گول واکر کی کتاب سے ثابت ہوتا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ ’ہندوستان ہندؤں کی زمین ہے اور یہاں صرف ہندؤں کو پھیلنے پھولنے کا حق ہے۔‘ اس کتاب میں کی جانے والی باتوں کو اب بھی اہم مانتے ہیں۔ سردار پٹیل نے لکھا کہ جہاں فرقہ ورانہ فسادات میں آر ایس ایس نے دفاعی اور امدادی کام کیا ہے وہیں اس نے ’اندوہناک مظالم‘ بھی کئے۔

طریقہ کار کیا ہے؟

خاکی کچھوں اور سفید شرٹس میں ملبوث آر ایس ایس کے کارکنوں کے ڈسپلن، جسمانی صحت اور ذہنی ہم آہنگی کو کافی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم صرف مردوں کے لیے ہے جبکہ خواتین کے لیے اس کی الگ تنظیم ہے۔ اس کے اراکین سے روزانہ ڈرل اور ورزش کروائی جاتی ہیں اور گروپس کی صورت میں تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ نوجوان خصوصا یونیورسٹی طلبہ بڑی تعداد میں اس کا حصہ ہیں۔ جب جب بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں رہی تو یہ تنظیم پھلی پھولی۔   

ممبران کے عطیات سے ہی اس کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ مخصوص ایام میں چندے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ لیکن بڑے صعنت کار، زمیندار اور مالدار بھی اس کی مالی اعانت کرتے ہیں۔

کن علاقوں میں متحرک ہے؟

2014 میں آر ایس ایس کے کارکنوں کی تعداد 50 سے 60 لاکھ رپورٹ کی گئی۔ لیکن بعض لوگوں کے بطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آر ایس ایس اپنے لیے حمایت کی اکثریت بھارت کے شمالی علاقہ جات سے حاصل کرتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جو ماضی میں فرقہ ورانہ اور پاک بھارت کشیدگی سے متاثر رہے ہیں۔ یہ بھارتی پنجاب، دلی، راجستھان، ممبئی کے علاوہ سب سے زیادہ بہار میں متحرک رہی ہے۔

آر ایس ایس کا مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کا ایک اور بڑا اشارہ سوامی اسیم آنند کی فروری 2014 میں جیل میں ایک رپورٹر کے ساتھ انٹرویو میں ملا۔ رپورٹر نے اپنے آپ کو ایک وکیل ظاہر کرتے ہوئے ان سے بات کی تھی۔ سوامی پر اجمیر درگاہ، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن ایک ایک کر کے تمام الزامات سے عدالت نے بری کر دیا تھا۔ اس انٹرویو میں ’زعفران دہشت‘ کہلوانے والے سوامی نے الزام لگایا تھا کہ بھارت میں دہشت گردی کے واقعات میں آر ایس ایس ملوث تھی۔ انہوں نے ایسا کوئی بیان دینے سے انکار کیا لیکن رپورٹر نے ان کا آڈیو جاری کر دیا۔ یہ ثبوت کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

امریکہ نے 2018 میں وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل کو شدت پسند قرار دیا تھا لیکن آر ایس ایس کو محض قوم پرست تنظیم کہا۔ اس تنظیم کے سابق کارکن جیانت شیل مندھرا اسے دہشت گرد تنظیم نہیں مانتے۔ وہ تاہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کے بعض پہلو جیسے کہ مذہب پر وہ کافی سخت گیر ہے لیکن یہ ان کے مطابق بھارت کے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی کرتے ہیں۔

اکثر لوگ آر ایس ایس کا شدت پسندی سے تعلق اگر مانتے نہیں تو شک ضرور کرتے ہیں۔ اب یہ تنظیم کی یا افرادی سطح پر اس کے اراکین کا کام تھا اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔     

وزیر اعظم عمران خان اپنے بیانات میں اس جانب اشارہ کرچکے ہیں کہ اگر آر ایس ایس بھارتی مسلمانوں کو قابو کر لیتی ہے تو اس کا اگلا ہدف پاکستان ہوچکتا ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس نے کبھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا ہے اور وہ غیرمنقسم ہندوستان کو ہندوؤں کی بڑی ریاست مانتی ہے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین