انڈین فوج کی حراست میں تین کشمیریوں کی موت پر لوگوں میں غصہ بڑھنے لگا

مقامی لوگوں نے فوجی اہلکاروں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے قریبی فوجی کیمپ میں حراست میں لیے گئے تین افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر میں جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے حامی 23 دسمبر2023 احتجاج کے دوران نعرے لگا رہے ہیں۔ (فوٹو اے پی/مختار خان)

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ دور افتادہ علاقوں میں فوج کی حراست کے دوران تین شہریوں کی موت کے بعد غم و غصہ پھیل گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انڈین فوج نے جمعرات کو پونچھ میں فوج کی دو گاڑیوں پر حملے کے تناظر جمعے کو پوچھ گچھ کے لیے ’کم از کم آٹھ شہریوں‘ کو حراست میں لیا تھا۔

سری نگر سے صحافی شہریار شبیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ جمعے کی رات جان سے جانے والے تین شہریوں میں 48 سالہ سیف احمد، 28 سالہ محمد شوکت اور توپا پیر گاؤں کے شبیر احمد شامل ہیں۔ 

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق لاشوں کو بعد میں مقامی پولیس کے حوالے کر دیا گیا جس نے خاندانوں سے رابطہ کیا۔ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ لاشوں پر شدید تشدد کے نشانات تھے۔

حراست میں لیے گئے افراد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ دیگر پانچ افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد فوجی ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک رہائشی محمد یونس نے بتایا کہ فوجی جمعہ کی صبح ضلع پونچھ کے ٹوپا پیر گاؤں میں آئے اور ان کے دو بھائیوں اور ایک کزن سمیت نو دیہاتیوں کو حراست میں لے لیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’ایک بزرگ شخص کو چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن دیگر کو بے رحمی سے پیٹا گیا اور بجلی کا کرنٹ لگایا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے دو بھائی اور ایک کزن تشدد کی وجہ سے بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔‘ یونس نے اپنے ایک بھائی کو دیکھنے کے بعد کہا کہ ان کا فوجی ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔

مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے شہریوں پر تشدد کی ویڈیوز ان کی قید کے چند گھنٹوں بعد انٹرنیٹ پر شیئر ہونے لگیں جنہیں دیکھ کر لوگوں میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پھیل گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز ڈپارٹمنٹ نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اموات کی اطلاع ملنے کے بعد میڈیکو لیگل کی رسمی کارروائی کی گئی اور متعلقہ حکام کی جانب سے اس معاملے کی قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’حکومت نے مرنے والوں کے لیے معاوضے کے ساتھ ساتھ ان کے رشتہ داروں کے لیے ملازمتوں‘ کا بھی اعلان کیا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حکام نے ہفتہ کی صبح پونچھ اور قریبی راجوڑی میں سمارٹ ڈیوائسز پر انٹرنیٹ خدمات منقطع کر دیں جو ممکنہ احتجاج اور ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنے کا ایک عام حربہ ہے۔

انڈین فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل سنیل بارٹوال کا کہنا ہے کہ ’حملے کے ذمہ دار عسکریت پسندوں کی تلاش کا آپریشن جمعرات کی شام سے جاری ہے اور انہیں تین شہریوں کی اموات کے اردگرد کے حالات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں‘۔

انڈین ایکسپریس نامی ویب سائٹ کے مطابق نیشنل کانفرنس نے پارٹی جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر کی قیادت میں سری نگر میں احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی طرف سے حکومت سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس بات کی تحقیقات کی جانی چاہییں کہ ان شہریوں کو کیوں مارا گیا۔ امن برقرار رکھنے اور اسے برقرار رکھنے کا یہی واحد طریقہ ہے، بصورت دیگر صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔‘


مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا