پولیٹیکل سپر لیگ: خان اور مصباح دونوں کا ہدف 2023

ملک کے کپتان عمران خان اور کرکٹ کے نئے سلطان مصباح کے پاس وقت ایک ہی جیسا ہے اور ٹیم بھی تقریباً ایک جیسی۔

بہترین گیم پلان وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی تھا اور مصباح کے پاس بھی ہے، لیکن کیا دونوں کے پاس ایک بہترین ٹیم ہے؟(اے ایف پی)

کرکٹ میں سیاست ہو یا سیاست میں کرکٹ یہ پاکستانیوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ کسی کو بھی بٹھا کر ان موضوعات پر گفتگو کر لیجیے تو ایسے ایسے مشورے، پیشن گوئیاں اور تبصرے سننے کو ملیں گے کہ دماغ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔

ایسے ایسے حوالے اور مثالیں سامنے لائی جائیں گی کہ عقل دنگ رہ جائے اور پھر کمال کی بات یہ کہ ان دونوں چیزوں میں بہت کچھ ایک جیسا ہوگیا ہے۔

— سیاسی ٹیم کی قیادت کر رہے ایک نیازی، میانوالی سے تعلق، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان۔

— کرکٹ ٹیم کو بھی اب چلائیں گے ایک نیازی، میانوالی سے تعلق، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان۔ 

دونوں نے ایسی ٹیموں کی باگ ڈور سنبھالی ہے جنہیں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے اور ڈسپلن کی بھی۔ بہترین گیم پلان خان کے پاس بھی تھا اور مصباح کے پاس بھی ہے، لیکن کیا دونوں کے پاس ایک بہترین ٹیم ہے؟

کرکٹ ٹیم میں سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے اوپنر کی۔ خان نے اپنی ٹیم بنانے سے بہت پہلے ہی اپنے اوپنر کو متعارف کرا دیا تھا۔ اس اوپنر نے مخالف نواز ٹیم کے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں روز یہ دعویٰ کیا کہ ہماری ٹیم آتے ہی رنز کے انبار لگا دے گی۔

اس اوپنر کی شخصیت ایسی تھی کہ ہر دعویٰ سچا اور ہر بات پیاری لگتی۔ نوجوان اس کے دیوانے ہوگئے اور سب کو بےتابی سے انتظار ہونے لگا کہ یہ اوپنر آئے اور معیشت کی باؤنسی وکٹ پر وہ شاندار پرفارمنس دے جس کی کئی سال پریکٹس کی۔

اعلان ہوا کہ یہ اوپنر اسد عمر اب خان کی پانچ سالہ سیاسی اننگز کا آغاز کریں گے۔ کھیل شروع ہوا، پانچ سال نیٹ پریکٹس کے دوران مخالفین کو مسلسل چوکے چھکے لگانے والے اسد عمر پچ پر آتے ہی اصلاحات کے سنگل ڈبل میں پھنس گئے۔

آئی ایم ایف کی باؤنڈری لگائی جائے یا آہستہ آہستہ سکور آگے بڑھائیں؟ اسد عمر یہی سوچتے رہ گئے اور اپنوں کے ہاتھوں ہی رن آؤٹ ہو کر پویلین پہنچ گئے۔ ٹیم کے سپورٹر حیران پریشان سوچتے رہ گئے آخر یہ ہوا کیا؟ اتنی جلدی کیوں نکالا؟؟؟؟؟ اور کس نے نکالا کپتان نے یا چیف سلیکٹر نے؟ 

ضروری نہیں ہر چیف سلیکٹر کے پاس حفیظ شیخ جیسا متبادل کھلاڑی تیار ہو۔ عبدالحفیظ شیخ جیسے کھلاڑی کے نازک کندھوں پر امیدوں کے پہاڑ کا بوجھ تھا۔ انہیں ون ڈاؤن کی پوزیشن پہ کھلایا گیا۔ انہوں نے آتے ہی آئی ایم ایف کا چھکا لگایا اور چھ ارب ڈالرز کا سکور قومی خزانے میں لے آئے۔ معاشی باؤنسر پھر بھی نہ رکے تو اثاثوں کی ایمنسٹی سکیم سے ہک لگانے کی کوشش کی۔

درآمدات کے بڑھتے رن ریٹ کو ٹیکس کی باؤنڈریز لگا کر کچھ کم کیا، لیکن ابھی بھی ہدف بہت بڑا ہے اور اگر سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کے مسلسل چھکے نہ لگے تو کامیابی کی امیدیں کم ہوتے ہوتے دم توڑ سکتی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب یہاں رکیں اور سوچیں مصباح کی ٹیم کا اوپنر کون ہوگا؟ مصباح کو چاہیے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں لیکن مصباح کی ٹیم میں یہ کمال بابر اعظم کا ہے۔

ون ڈاؤن کی پوزیشن تقریباً پکی ہے۔ وہ سامنے والے کی یارکر، باؤنسر، ان سوئنگ یا آؤٹ سوئنگ کو خاطر میں نہیں لاتے، اپنا کھیل کھیلتے ہیں سکور بناتے ہیں، تنقید کرنے والوں کو منہ بند رکھنے کے مواقع اکثر فراہم کرتے رہتے ہیں۔ جیسے حفیظ شیخ پرانی ٹیم کی گڈ بوکس میں تھے بالکل ویسے ہی بابر اعظم سابق کوچ مکی آرتھر کی گڈ بکس میں تھے اور امکان ہے مصباح الحق کو بھی مطمئن رکھیں گے۔

اب آ جائیں مڈل آرڈر پر۔ اس جگہ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ٹیم کو خطرناک حملوں سے بچانا، ٹیم میں توازن رکھنا اور عمران خان کی پلئینگ الیون میں فواد چوہدری مڈل آرڈر پر خوب کھیلے۔

مخالف نواز ٹیم ہو یا اپنی پرانی پیپلز پارٹی، سب کو باؤنڈریز لگائیں۔ فواد پہلے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور آصف علی زرداری کی ٹیموں کی طرف سے بھی کھیلتے رہے ہیں لہذا آپ ان کو ’آل راؤنڈر‘ کہہ سکتے ہیں۔

مناسب پرفارمنس کے باوجود کپتان خان نے موجودہ ٹیم میں ان کا بیٹنگ آرڈر تبدیل کر دیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے جب نبرد آزما ہونا پڑا تو چاند کے معاملے میں مفتی منیب الرحمان اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے یارکرز نے پہلے خوب پریشان کیا لیکن قمری کلینڈر کی کور ڈرائیو سے خوب داد سمیٹی اور صلہ عید کے چاند کی صورت میں پا لیا۔

کرکٹ ٹیم میں یہی صورت حال محمد حفیظ کی ہے۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے حفیظ ’پروفیسر‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ سولہ برس سے ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں بولنگ اور بیٹنگ میں فارمولے چلاتے رہے ہیں، اکثر کامیاب رہے لیکن 2019 کے ورلڈ کپ میں ان کا دو جمع دو چار کام نہ دکھا سکا۔

تجربہ کار کھلاڑی کا تجربہ ورلڈ کپ میں چل کے نہ دیا۔ مسلسل خراب پرفارمنس سے نہ صرف شدید تنقید کی زد میں آئے بلکہ کرکٹ بورڈ نے نئے سینٹرل کنٹریکٹ سے ہی باہر کردیا۔ حفیظ نے ون ڈے کرکٹ سے تو ریٹائرمنٹ نہ لی لیکن پی سی بی نے اپنے فیصلے سے پروفیسر صاحب کو جواب دے دیا اور یہی لگتا ہے مصباح بھی راضی بہ رضا ہی چلیں گے۔

اب بات اس کھلاڑی کی جس کا ٹیم میں ہونا مصیبت، نہ ہونا بھی مصیبت۔ خان صاحب کے ’ماسٹر بلاسٹر‘ شیخ رشید جو صرف چیئر لیڈر کے روپ میں قوم کا دل بہلا رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ کوئی نہ کوئی پھلجھڑی اور شرلی ہوا میں چھوڑتے ہیں۔

قوم کو بھی مزہ لگا ہوا ہے، میڈیا کی ریٹنگ بھی آ رہی ہے، اپوزیشن کا رد عمل بھی آ رہا ہے، اچھی مصروفیت ہے البتہ کام؟ کام تو جناب کچھ نہیں ہو رہا، پٹری سے اتری ریلوے کب ٹریک پہ آئے گی یہ مت پوچھیے کیونکہ وہ خود بھی نہیں جانتے تو آپ اور ہم بھلا کیا جانیں۔

اس معاملے میں مصباح خوش قسمت ہیں کہ اس وقت ان کی ٹیم میں شیخ صاحب والا کوئی کریکٹر نہیں۔ ہمارے پیارے آفریدی بھائی ہوتے تو شیخ صاحب کو ضرور ٹف ٹائم دیتے۔

ٹیم کی ایک اور اہم کھلاڑی ہیں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی آپا فردوس عاشق اعوان جو الیکشن سے قومی اسمبلی میں نہ پہنچ سکیں تو سینیارٹی کے وائلڈ کارڈ پہ سکواڈ میں شامل کر لی گئیں۔

مشیر اطلاعات ہیں تو ہوا میں اڑتے پرندے کے پر گننے کا بھی دعوی رکھتی ہیں۔ پہلے زرداری الیون میں کھیلتی تھیں اب پی ایس ایل یعنی پولیٹیکل سپر لیگ میں ٹیم بدل لی ہے۔ اپنے سابق کپتان کو ہی باؤنسر مارنے کا فریضہ نبھاتی ہیں۔

ایسی ہی سیاست کئی سالوں سے کرکٹ میں کرتے آ رہے ہیں سیالکوٹ کے شعیب ملک، وہ بھی آپا کی طرح کسی نہ کسی طرح ہر ٹیم میں ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ آپا نے ہمیشہ اپنے سیالکوٹی پڑوسی کو سپورٹ بھی خوب کیا۔ شعیب نے کھیل میں خوب سیاست کرنے کے بعد خود ہی کھیل کو خیر باد کہہ دیا اور اگر نہ بھی کہتے تو ورلڈ کپ میں سینیارٹی کی بنیاد پر منتخب ہو کر انہوں نے جو بچکانہ کھیل کھیلا اس کے بعد ویسے بھی ٹیم سے باہر ہی ہوگئے تھے۔ لیکن مصباح خیال رکھیں، ٹیم کے باہر بیٹھے لوگ بھی سیاست کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں۔

توجناب  کل ملا کر ایسا ہے کہ ملک کے کپتان عمران خان اور کرکٹ کے نئے سلطان مصباح کے پاس وقت ایک ہی جیسا ہے اور ٹیم بھی تقریباً ایک ہی جیسی۔

مصباح کا پہلا ہدف اگلے برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور پھر ورلڈ کپ ہے۔ عمران خان کا بڑا ہدف بھی اگلا الیکشن ہی ہے اور مزے کی بات یہ کہ الیکشن کپ اور ورلڈ کپ دونوں ہی ہونے جا رہے ہیں 2023 میں، تقریباً ایک ساتھ۔

فی الحال تو فکر یہ نہیں کہ جیسے ملک چل رہا ہے ویسے ہی ٹیم چل رہی ہے۔ فکر یہ ہے کہ ایسے ہی نہ چلتی رہیں۔ اللہ سے دعا ہے دونوں ٹیمیں ہماری امیدوں پر پورا اترتے ہوئے خیر خیریت سے 2023 تک پہنچا دیں اور چیف سلیکٹرز جو بھی فیصلے کریں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر