مولانا کا دھرنا کیا کچھ کر پائے گا؟

عام خیال ہے کہ مولانا الیکشن ہارنے کا غصہ اتارنا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے اب تک مہنگائی اور غربت کے خلاف ایک بھی دھرنا نہیں دیا۔

مولانا فضل الرحمان کا دھرنا اپنے لیے ہے، قوم کے لیے نہیں اس لیے قوم کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں(اے ایف پی)

اردو کا ایک مشہور مقولہ ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ یہ محاورہ آج کل خان صاحب پر پوری طرح لاگو ہوتا ہے۔ جن برائیوں کا الزام وہ اپنے سیاسی مخالفین پر لگایا کرتے تھے آج کل وہی ساری برائیاں ان کی اپنی حکومت میں نظر آ رہی ہیں۔

کرپشن ایسی جو پکڑی نہ جائے، اقربا پروری کا دور دورہ ہے، قابلیت اور صلاحیت ناپید ہے اور خوشامدی ہر سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ قانون، آئین اور قوائد و ضوابط ایسا لگتا ہے معطل ہیں اور ہر کام صدارتی دستخطوں سے ہو رہا ہے۔

مگر سب سے اہم پیش رفت یہ کہ مولانا نے خان صاحب کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خان صاحب کی پریشانی کا یہ حال ہے کہ انہیں کنٹینر دینے کی بجائے کشمیر کی دھائی دے رہے ہیں۔

مگر مولانا بضد ہیں کہ وہ اکتوبر میں دھرنا دے کے رہیں گے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے قبل حزب اختلاف کی پارٹیوں کو کئی تجاویز دیں۔ میرے خیال میں یہ وقت سڑکوں پر احتجاج کرنے کا نہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔

کشمیر کا مسئلہ یقیناً اہم ہے مگر میرا احتجاج نہ کرنے کا مشورہ اس وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ہے۔ پہلی بات یہ کہ مولانا دھرنا حکومت ہٹانے کے لیے دے رہے ہیں، اگر حکومت گر بھی جاتی ہے تو عوام کی صحت پر کیا فرق پڑے گا؟ پھر الیکشن ہوں گے اور وہی لوگ واپس پارلیمان میں آ جائیں گے جو پچھلی کئی دھائیوں سے آ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا یہ کہ عام آدمی کا خیال ہے کہ مولانا الیکشن ہارنے کا غصہ اتارنا چاہتے ہیں اس لیے مہنگائی اور غربت کے خلاف انہوں نے ایک بھی دھرنا نہیں دیا۔ تیسرا یہ کہ اگر حکومت دھرنے سے نہیں گرتی تو پھر مولانا کا پلان کیا ہو گا؟ اس کی کسی نے وضاحت نہیں کی۔

چوتھا یہ کہ سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کس نے کمر میں چھرا گھونپا؟ اس کے بارے میں پوری حزب اختلاف خاموش ہے۔ کیوں؟ اس کا مطلب یہ کہ ظاہر کچھ اور باطن کچھ کا معاملہ ہے۔ 

پچھلے گیارہ سال کی جمہوریت میں کچھ نئی روایتوں نے جنم لیا ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ پارلیمان اپنا آئینی پانچ سالہ دور مکمل کرتی ہے مگر ایوان کے اندر وزیر اعظم بدلے ہیں تاکہ پہیہ چلتا رہے اور سویلین سیاست کی گاڑی پڑی سے نہ اترے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ پچھلے دس سالوں میں وزیر اعظم کی تبدیلی کورٹ کے زور پر عمل میں آئی نہ کہ سیاسی عمل سے۔

یوسف رضا گیلانی کو خط نہ لکھنے کے صلے میں کورٹ نے نااہل قرار دیا اور انہیں وزارت عظمی سے ہاتھ دھونا پڑا جبکہ بقایا وقت راجہ پرویز اشرف نے پورا کیا۔ نواز شریف کو بھی کورٹ نے نااہل قرار دیا اور باقی مدت شاہد خاقان عباسی نے پوری کی۔ یعنی پارلیمان کے اندر تبدیلی عوام کے زور سے نہیں بلکہ سیاسی انجینیئرنگ کے نتیجے میں رونما ہوئی اس لیے کورٹ ان مقدموں سے جڑے کچھ معاملات کو ابھی تک انصاف کے تقاضوں کے بغیر نمٹا نہ سکی۔

عمران خان کو فوج کی ہی نہیں بلکہ عدلیہ کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے اس لیے شاید کسی مقدمے کی وجہ سی پارلیمان کے اندر تبدیلی نہ آ سکے۔ شاید یہی موقع ہے کہ جمہوریت میں ایک نئی روایت قائم ہو اور حکومت کے پارلیمانی ارکان اس بات کو قبول کریں کہ ان کا وزیراعظم اس عہدے کا اہل نہیں۔ اگر وہ مزید اس عہدے پر رہا تو اس ملک کو زیادہ نقصان پہنچے گا اور عوام کا غم و غصہ بڑھتا جائے گا۔

حکومتی پارٹی کے لوگوں کو چاہیے کہ قومی مفاد میں پارلیمان کے اندر تبدیلی لائیں اور کسی اہل آدمی کو وزیر اعظم بنائیں تاکہ حکومت چل سکے۔ تیسرے امپائر کو بھی چاہیے کہ اپنے بھیجے ہوئے لوٹوں کو تبدیلی کے لیے متحرک کریں کیونکہ حکومت کی ناقص کارکردگی پر عوام کی انگلیاں ان ہی کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اور اب تو ایکسٹنشن بھی لے چکے ہیں اب فکر کس بات کی۔ 

آخر میں مولانا کی خدمت میں عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ جمہوریہ میں انہوں نے طاقت کے بہت مزے لیے ہیں مگر لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ڈی آئی خان اور ٹانک انہیں کئی دھائیوں سے ایوان میں بھیج رہا ہے مگر یہ دونوں علاقے اب بھی ملک کے پسماندہ ترین ضلعے ہیں۔ مولانا کا دھرنا اپنے لیے ہے، قوم کے لیے نہیں اس لیے قوم کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ