برطانوی وزیر اعظم پر مسلم رکن پارلیمان کے خلاف ’اسلاموفوبک‘ بیان کا الزام، معافی کا مطالبہ

رشی سونک پر اس وقت ’اسلاموفوبک‘ یا اسلام مخالف استعارہ کا استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے جب انہوں نے لیبر پارٹی کی مسلم رکن زارا سلطانہ سے کہا کہ وہ ’حماس اور حوثیوں سے کشیدگی کو کم‘ کرنے کا مطالبہ کریں۔

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک پر اس وقت ’اسلاموفوبک‘ یا اسلام مخالف استعارہ کا استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے جب انہوں نے لیبر پارٹی کی رکن زارا سلطانہ سے کہا کہ وہ ’حماس اور حوثیوں سے کشیدگی کو کم کرنے کا مطالبہ‘ کریں۔

لیبر پارٹی سے ہی تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان ناز شاہ نے وزیر اعظم سے اس بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان ’تکلیف دہ‘ تھا۔

بعد ازاں درالعوام میں بحث کے دوران زارا سلطانہ نے کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیر اینڈریو پرسی پر بھی ’نسل پرستانہ استعارہ‘ استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

کوونٹری ساؤتھ سے منتخب ہونے والی رکن پارلیمنٹ زارا نے دعویٰ کیا کہ اینڈریو پرسی کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ ایک مسلمان ہیں اس لیے وہ حماس کی حمایت کرتی ہیں۔

درالعوام میں خطاب کرتے ہوئے زارا سلطانہ نے کہا: ’مشرق وسطیٰ میں ماضی کی غلطیوں نے اس ایوان کو سکھایا تھا کہ ابتدا کی محدود فوجی مداخلتیں تیزی سے پھیل سکتی ہیں جس سے واقعات کی ترتیب کا انتہائی وسیع اور خوفناک ہونے اور یہاں تک کہ ہمیں جنگ میں گھسیٹے جانے کا بھی خطرہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق دفتر خارجہ کے اہلکار یمن میں گذشتہ ہفتے کے فوجی حملے کے بارے میں ناقابل یقین حد تک گھبراہٹ کا شکار تھے۔‘

ان کے بقول: ’خطے کے عدم استحکام کا سبب غزہ پر اسرائیل کا ہولناک حملہ ہے جو اب 100 دن سے زیادہ عرصے سے جاری ہے تو کیا اسرائیل کو غزہ پر اپنی وحشیانہ بمباری جاری رکھنے اور وسیع تر تنازعے کے خطرے کی حمایت کرنے کی بجائے، کیا وزیر اعظم کشیدگی کو کم کرنے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کریں گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے جواب میں رشی سونک نے کہا: ’شاید خاتون رکن کا حماس اور حوثیوں سے شیدگی کو کم کرنے کے لیے مطالبہ کرنا بہتر ہوتا۔‘ اس پر زارا سلطانہ نے چیختے ہوئے کہا کہ آپ کو ’شرم آنی چاہیے۔‘

اینڈریو پرسی، جو وزیر اعظم سے سوال پوچھنے والے اگلے رکن پارلیمان تھے، نے کہا: ’بہت سے لوگ دہشت گردوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جنہوں نے یہودیوں کے بدترین قتل کا ارتکاب کیا اور ہم نے اس کی ایک مثال دیکھی ہے۔ ہم نے رواں ہفتے کے کے اختتام پر اپنی سڑکوں پر اس کی مثالیں دیکھی گئیں جہاں لوگ چیخ رہے تھے 'یمن، یمن ایک اور جہاز کو نشانہ بناؤ‘ اور (ایسے مظاہرے ) مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں۔‘

بعد کے سیشن میں ناز شاہ نے زارا سلطانہ کے حوالے سے وزیر اعظم کے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

بریڈ فورڈ ویسٹ سے منتخب ناز شاہ نے کہا: ’یہ واقعی ایک نئی پستی تھی اور آج ایک نیا دردناک دھچکا ہے کہ وزیر اعظم نے اس ایوان میں ایک برطانوی مسلمان اور کوونٹری ساؤتھ کی رکن سے کہا کہ وہ حماس اور حوثیوں کو وہ کرنے سے روکیں جو وہ کر رہے ہیں۔‘

ان کے بقول ’یہ ایک اسلامو فوبک استعارہ ہے، ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم سوچیں، اپنے بیان سے پیچھے ہٹیں اور قیادت دکھانے اور معافی مانگنے کا موقع ضائع نہ کریں۔‘

اس پر رشی سونک نے جواب دیا: ’میں نے تمام اراکین سے مستقل طور پر کہا ہے کہ وہ ان تنازعات کو نہ الجھائیں اور جب وہ برطانیہ سے تناؤ کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ جان لیں کہ ان حالات کا سبب بننے والے سب سے پہلے حماس کی دہشت گرد تنظیم ہے اور حوثی ملیشیا ہے۔‘

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’اور اس کا کسی اور چیز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے سوائے اس تشدد اور غیر قانونی اقدام کے اکسانے والوں کو پہچاننے اور اس بات کو یقینی بنانے کے کہ جب ہم جواب دینے کے بہترین طریقہ کے بارے میں یہ گفتگو کرتے ہیں تو یہ سب کے ذہنوں میں سب سے اوپر ہے۔‘

زارا سلطانہ نے بعد میں ایک نکتہ اٹھایا کہ انیڈریو پرسی کے ’نظر انداز کرنے‘ کا الزام ’حیرت انگیز طور پر غلط’ تھا۔

انہوں نے مزید کہا: ’رکن کا سنگین الزام نسل پرستانہ رویے کا عکاس ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں مسلمان ہونے کی وجہ سے حماس کی حمایت کرتی ہوں۔‘

اس پر انیڈریو پرسی نے کہا کہ وہ اپنے بیان میں زارا سلطانہ کا حوالہ نہیں دے رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا: ’میں یہ کہنے سے باز نہیں آؤں گا کہ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں نے اپنے برتاؤ سے اسے نظر انداز کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا