کیا پاکستانی خواتین کیپسول وارڈ روب بنا سکتی ہیں؟

ہر نسل میں نوجوان لڑکیوں کے پاس ایک محدود سی کیپسول وارڈ روب ہوتی تھی، مگر ہمارے آج کے معاشرے اس رواج کو قائم رکھنا کتنا آسان ہے؟

15 جولائی 2012 کو پاکستانی خواتین لاہور میں سڑک کے کنارے ایک دکان پر کپڑے دیکھ رہی ہیں (اے ایف پی)

فیشن کی دنیا میں ’کیپسول وارڈروب‘ ایک اہم مفہوم ہے۔ اس میں ایسے کپڑے، جوتے اور ایکسیسریز آتے ہیں جو کبھی بھی فیشن سے باہر نہیں جاتے۔ انہیں کبھی بھی پہنا جا سکتا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

ان کے ساتھ دیگر کپڑوں، جوتوں یا ایکسیسریز کو مکس اینڈ میچ کر کے ایک اچھا سا لباس تیار کر لیا جاتا ہے۔

جیسے کہ ایک کالی سکرٹ۔ اس کے ساتھ کوئی سفید بلاؤز اور کوٹ بھی پہن سکتا ہے تو کوئی اس کے اوپر ایک سرخ یا نیلی قمیض پہن سکتا ہے۔ ساتھ ایک بیلٹ۔ نازک سی ہیل اور ایک اچھا سا پرس۔

لیکن پاکستان میں کیپسول وارڈروب کیسے بنے؟ استغفراللہ، ہم یہاں جینز اور سکرٹس نہیں پہنتے۔

پاکستانی خواتین اپنی کیپسول وارڈروب کیسے بنا سکتی ہیں یا بنا بھی سکتی ہیں یا نہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔

نوجوان لڑکیوں کے لیے تو یہ بہت آسان ہے۔ ہر نسل میں نوجوان لڑکیوں کے پاس ایک محدود سی کیپسول وارڈ روب ہوتی تھی۔

ایک زمانہ تھا جب لڑکیوں کے جینز پہننے کی وجہ سے زلزلے نہیں آتے تھے۔ وہ دو تین اچھی سی جینز خریدتی تھیں اور پھر انہیں رنگین قمیصوں یا کرتوں کے ساتھ پہن لیتی تھیں۔

کچھ کے کیپسول وارڈ روب میں ایک کالا برقع اور جوگرز ہوتے تھے۔ جو بھی پہنا، اس کے اوپر برقع چڑھایا، جوگرز کسے اور نکل گئے۔

جنہیں جینز پسند نہ ہوتی وہ ہر قمیص کو سفید یا کالی شلوار کے ساتھ پہن لیتی تھیں۔ ساتھ قمیص کے مطابق ایک رنگ میں رنگا ہوا دوپٹہ اوڑھ لیا۔

یہ شلواریں اور دوپٹے ہماری کیپسول وارڈ روب کا اہم حصہ ہیں۔

قریباً ہر لڑکی کے پاس ایک چھوٹی سی کیپسول وارڈ روب ہوتی ہے لیکن پاکستان میں اس کا زیادہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ہمارے سماجی ڈھانچے میں لڑکیاں اور خواتین اپنی محدود زندگی کو کسی قدر مکمل کرنے کے لیے اہم مواقع پر اچھے ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔ انہیں ہر موقع کے لیے نیا جوڑا چاہیے ہوتا ہے جس میں قمیض، شلوار اور دوپٹہ شامل ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے کپڑے اس قدر رنگین اور مکس پیٹرن کے ہوتے ہیں کہ ایک جوڑے کا دوپٹہ دوسرے جوڑے کے اوپر برا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک جوڑے کی نیلی شلوار کسی دوسری نیلی قمیض کے ساتھ میچ ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ مجبوراً ہمیں ہر موسم میں کئی جوڑے بنانے پڑتے ہیں۔

پاکستانی ڈیزائنرز نے کیپسول وارڈروب کی ضرورت کو کسی حد تک پورا کر دیا ہے۔ وہ اپنی ہر کیمپین میں ڈھیروں کرتے، قمیضیں اور پاجامے متعارف کرواتے ہیں۔

تاہم وہاں بہت سے مسائل آ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے قوتِ خرید کا مسئلہ۔ ان برانڈز سے ایک مخصوص طبقہ ہی خریداری کر سکتا ہے۔

ڈیزائنر کے ذہن میں قوتِ خرید کا جو تصور ہے وہ ایک عام گھر کے تصور سے مختلف ہو سکتا ہے۔

ڈیزائنر کے لیے ایک ٹراؤزر کو تین ہزار سے سات ہزار پاکستانی روپوں میں رکھنا سستا ہے لیکن ایک سفید پوش گھرانے کے لیے ایک لڑکی کا ٹراؤزر پانچ ہزار میں خریدنا سستا نہیں ہے۔

اور اگر اس گھر میں کئی لڑکیاں موجود ہوں اور کمانے والا بس ایک تو بس رہنے ہی دیجیے۔

ایک دوپٹہ جو عام مارکیٹ میں پانچ سو یا ہزار میں مل سکتا ہے وہ کسی برانڈ سے چار ہزار میں لینے کی کیا ضرورت ہے؟

اس کے علاوہ گھر میں جو شادی شدہ خواتین موجود ہیں وہ اس طرح اپنا لباس تیار نہیں کر سکتیں۔ انہیں ہر لباس الگ چاہیے، تھری پیس، شلوار، قمیض اور دوپٹہ۔ انہیں گھر بھی ایک ہی جوڑے کی تینوں چیزیں پہن کر رہنا ہوتا ہے اور باہر جاتے ہوئے بھی اپنے لباس کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔

ان کے لیے تھری پیس سوٹ ہی واحد آپشن ہیں جو قدرے مہنگے ہوتے ہیں۔ ان سلے بھی لے لیے جائیں تو انہیں سلوانے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

ہر جوڑے کے لیے درزی کے ساتھ گھنٹوں سر کھپانا پڑتا ہے۔ کس سوٹ کے ساتھ شلوار بنے گی تو کس کے ساتھ ٹراؤزر۔ کس کے بازو پر لیس لگانی ہے تو کس کے دامن پر، سب سمجھانے کے باوجود وہ کسی نہ کسی جوڑے میں غلطی کر دیتا ہے۔ 

پھر ان کپڑوں کی معیاد بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔ ایک سے دو سال میں ہر کپڑے کا ایک سا حال ہو جاتا ہے۔ پھر انہیں یہ سارا خرچ دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔

کیپسول وارڈ روب میں موجود کپڑے ہر موسم اور ہر فیشن میں پہنے جا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ بھی ممکن نہیں۔

یہاں گرمی اور سردی کے الگ کپڑے ہوتے ہیں۔ خواتین گرمیوں میں عموماً لان اور سردیوں میں کھدر، کیمبرک، لینن یا پتہ نہیں کیا کچھ پہنتی ہیں۔ 

ہر موسم میں درجنوں کپڑے بنانا لازمی ہے۔ کچھ کو شوق ہوتا ہے تو کچھ کی مجبوری۔

ہمیں بھی ہر سال چند لاکھ گھر والوں کے کپڑوں پر لگانے پڑتے ہیں۔ ہر سال گرمی کے کپڑے بھی بنتے ہیں اور سردی کے بھی۔ سال میں دو عیدیں بھی آتی ہیں اور کچھ شادیاں بھی۔ کل ملا کر چند لاکھ تو کپڑوں پر لگ ہی جاتا ہے۔

ایسے میں کیپسول وارڈ روب کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی ایک کیپسول وارڈ روب بن سکتی یا اس میں بہت سی چیزیں رکھی جا سکتیں تاکہ ہمیں ہر سال کپڑوں پر لاکھوں روپے خرچ نہ کرنے پڑتے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ