پشاور میں اندرون شہر کے علاقوں پر مشتمل ماضی میں این اے ون کے نام سے جانا جانے والا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 32 آٹھ فروری کے انتخابات کے دوران ان چند حلقوں میں سے ہے جن پر عوام اور میڈیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
سیاسی اور انتخابی لحاظ سے یہ ایک اہم حلقہ ہے جس کی وجہ ماضی میں یہاں سے بڑے ناموں کا انتخابات میں حصہ لینا اور بعض بڑے اپ سیٹ ہیں۔
اس حلقے پر انتخابات میں حصہ لینے والے کھلاڑی بہت تگڑے سمجھے جاتے ہیں، جن میں دو سابق وزرائے اعظم، دو صوبائی گورنر، ایک وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزرا شامل ہیں۔
اس حلقے کے لیے میدان میں اترنے والوں میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان، جمعیت علمائے اسلام ف کے رہنما اور موجودہ صوبائی گورنر حاجی غلام علی، سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے حاجی غلام احمد بلور، پیپلز پارٹی کے ارباب ظاہر شاہ اور سابق صوبائی وزیر اعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ بھی شامل ہیں۔
اہم مقابلے
ماضی کے این اے ون پشاور ون میں ہونے والا سب سے بڑا اپ سیٹ 1990 کے عام انتخابات میں دیکھنے میں آیا تھا، جب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے حاجی غلام احمد بلور نے اس وقت کے پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 12 ہزار سے زیادہ ووٹوں کی برتری سے شکست دی تھی۔
انہی انتخابات میں بے نظیر بھٹو نے لاڑکانہ سے بھی حصہ لیا تھا اور وہاں سے بھاری اکثریت سے جیت کر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنی تھیں۔
1993 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سید ظفر علی شاہ نے اے این پی کے غلام احمد بلور کو پانچ ہزار ووٹوں سے شکست دے کر یہ سیٹ اپنے نام کی تھی۔
1988 کے انتخابات میں اس وقت کے خیبر پختونخوا میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آفتاب احمد خان شیر پاؤ، جنہوں نے بعد میں اپنا الگ دھڑا بنایا اور اب قومی وطن پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں، نے اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کو شکست دی تھی۔
چارسدہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیابی حاصل کرنے والے آفتاب شیرپاؤ نے بعدازاں پشاور کی یہ سیٹ چھوڑ دی تھی، جب کہ ضمنی انتخابات میں یہ سیٹ حاجی غلام بلور کے حصے میں آئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد 1997 کے انتخابات میں بھی اسی سیٹ پر غلام بلور نے پی پی پی کے قمبر عباس کو 15 ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
جبکہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار شبیر احمد خان نے اے این پی کے عثمان بشیر بلور کو شکست دے کر یہ سیٹ اپنے نام کی تھی۔
اے این پی کے حاجی غلام بلور نے 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ کو تقریباً پانچ ہزار ووٹوں سے شکست دے کر یہ حلقہ دوبارہ اپنے نام کیا تھا۔
2013 کے انتخابات میں یہ حلقہ اس وقت خبروں کی زینت بنا، جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے یہاں سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور اے این پی کے حاجی غلام احمد بلور کو تقریباً 40 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
تاہم بعدازاں عمران خان نے یہ نشست چھوڑ دی، لیکن ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی یہ نشست برقرار نہ رکھ سکی اور غلام بلور نے پی ٹی آئی کے امیدوار گل بادشاہ کو تقریباً 30 ہزار ووٹ کی برتری سے شکست دی۔
البتہ 2018 کے انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی نے اے این پی کے حاجی غلام بلور کو تقریباً 50 ہزار ووٹوں سے شکست دے کر یہ سیٹ دوبارہ پی ٹی آئی کے لیے حاصل کر لی۔
نیا اور پرانے نام
2018 کے انتخابات سے قبل اس حلقے کو این اے ون کہا جاتا تھا، لیکن نئی حد بندیوں کے بعد نئی حلقہ بندیوں میں اسی حلقے کو این اے 27 قرار دے دیا گیا۔
تاہم حالیہ حلقہ بندیوں میں اسے این اے 32 کا نام دیا گیا ہے اور اس میں فصیل شہر کے اندر کے علاقوں کے علاوہ پشاور کے کچھ نواحی علاقوں کو بھی شامل کیا گیا، جب کہ این اے ون اب خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال کو کہا جانے لگا ہے۔
2002 کے انتخابات تک پشاور میں قومی اسمبلی کے تین حلقے تھے، جنہیں بعد میں بڑھا کر پانچ کر دیا گیا اور یہ تقسیم ابھی تک موجود ہے۔
این اے 32 میں شہر پشاور کے مشہور علاقے قصہ خوانی، گور گٹھڑی تحصیل، چوک یادگار، رامداس، کریم پورہ اور گھںٹہ گھر وغیرہ شامل ہیں۔ حلقے کی مجموعی آبادی آٹھ لاکھ 70 ہزار سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔
آٹھ فروری اور این اے 32 پشاور
آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے این اے 32 پشاور پانچ میں اے این پی نے چھ بار یہاں سے جیتنے والے 80 سالہ حاجی غلام احمد بلور کو میدان میں اتارا ہوا ہے، جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت کے ساتھ سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی آصف خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلے میں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حلقے میں عابد یوسفزئی کو ٹکٹ دیا ہے، جب کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار حسین احمد مدنی میدان میں ہیں۔
محمد فہیم پشاور کے صحافی ہیں اور ان کا ووٹ بھی این اے 32 میں رجسٹر ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی قریب میں اس حلقے میں اے این پی کو کچھ مشکلات درپیش رہیں، جن میں ان کے کچھ دیرینہ کارکنوں کا جماعت چھوڑ کر جانا بھی شامل تھا۔
انہوں نے کہا: ’حاجی محمد عمر کا تعلق اسی حلقے سے ہے اور وہ اے این پی کے پرانے ساتھی تھے لیکن اب انہوں نے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کر لی ہے، جس سے غلام بلور کا ووٹ بینک خراب ہو سکتا ہے اور اسی طرح اے این پی پشاور سٹی کے صدر بھی پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔‘
2002 میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے ٹکٹ پر اس حلقے سے جماعت اسلامی کے شبیر احمد خان رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، جب کہ اس مرتبہ جماعت اسلامی نے طارق متین کو امیدوار نامزد کیا ہے۔
عام لوگ کیا سوچتے ہیں؟
اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ووٹر عبدالصمد نے کہا کہ ’ہمارے اہم مسائل میں مہنگائی، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ شامل ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہاں سے جیتنے والے ایم این اے ان مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں گے۔‘
ایک اور ووٹر ممتاز گل نے کہا کہ پیپلز پارٹی والوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا، جو غریبوں کے لیے بہت اچھا تھا۔ پھر بعد میں نیشنل پارٹی والے غلام احمد بلور نے بھی حلقے میں بہت کام کیا ہے اور یہاں ترقیاتی کاموں میں بہت دلچسپی لی۔ پھر عمران خان کے بندے آئے تو انہوں نے بھی کام کیے۔ سب لگے ہوئے ہیں، اپنے حساب سے کام کرتے رہتے ہیں۔‘
ایک ووٹر نے کہا کہ ’جب انتخابی مہم چلتی ہے تو امیدوار کہتے ہیں تم ہمارے بھائی ہو۔ لیکن جب وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں اور ہم ان کے پاس کسی کام سے جائیں تو پہچانتے ہی نہیں کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ووٹ ہم ضرور دیں گے مگر اس سے غریبوں کو کیا ملے گا۔ یہ صرف اونچے طبقے والوں کی بات ہے۔‘
پاکستان میں انتخابی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جبکہ سیاسی جوڑ توڑ کے سلسلے بھی جاری ہیں۔
فروری کے انتخابات میں کون سی جماعت سبقت لے جاتی ہے اور کون سا امیدوار کامیابی حاصل کرتا ہے، اس کا فیصلہ تو آئندہ مہینے کی آٹھ تاریخ کے بعد ہی ہو سکے گا۔
تاہم پشاور میں قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 32 پشاور پانچ اپنی سیاسی، انتخابی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر عوام، میڈیا اور تجزیہ کاروں کی نگاہوں کا مرکز رہے گا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔