لندن: خاتون اور بچیوں پر تیزاب سے حملہ کرنے والے شخص کی تلاش

جنوبی لندن کے علاقے کلیفام میں پیش آنے والے اس ہولناک واقعے میں 31 سالہ خاتون اور ان کی تین اور آٹھ سالہ بیٹیوں سمیت نو افراد زخمی ہوئے۔

پولیس نے عینی شاہدین سے بھی سامنے آنے کی درخواست کی ہے (بارنی ڈیوس/ دی انڈپینڈنٹ)

برطانوی دارالحکومت لندن میں ایک خاتون اور ان کی دو کم عمر بیٹیوں پر ’ہدف بنا کر‘ تیزاب سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں خاتون اور ان کی تین سالہ بیٹی زندگی تبدیل کر دینے والے زخموں کا شکار ہو گئیں۔ حملے کے بعد خاتون مدد کے لیے پکارتی رہیں۔

جنوبی لندن کے علاقے کلیپم میں مقامی وقت کے مطابق بدھ کو شام سات بج کر 25 منٹ پر پیش آنے والے اس ہولناک واقعے کے بعد پولیس حملہ آور کو تلاش کر رہی ہے۔ تیزاب کے حملے میں 31 سالہ خاتون اور ان کی تین اور آٹھ سالہ بیٹیوں سمیت نو افراد زخمی ہوئے۔

بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاتون اور ان کے بچوں کی مدد کو پہنچنے والے راہگیر اور جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے تین پولیس افسر بھی حملے کی زد میں آئے۔

پولیس نے جمعرات کو تصدیق کی کہ خاتون اور ان کی بچیوں پر تیزاب پھینکا گیا جس کے بعد وہ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اگرچہ ان کے زخموں کو جان لیوا نہیں سمجھا گیا لیکن دو لوگوں کو ایسے زخم آئے جن سے ان کی زندگی تبدیل ہو سکتی ہے۔

تفتیش کاروں کا ماننا ہے کہ حملہ آور بچوں کی والدہ کو جانتا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ وہ ایک ’خطرناک شخص‘ ہے، انہوں نے عینی شاہدین سے بھی سامنے آنے کی درخواست کی۔

35  سالہ شینن کرسٹی کا کہنا ہے کہ وہ مدد کی آوازیں سن کر متاثرہ خاتون کی مدد کے لیے باہر بھاگیں۔ اس سے قبل انہوں نے دیکھا کہ سیاہ لباس پہنے ایک شخص نے ایک بچے کو دو بار زمین پر پٹخا ’جیسے وہ کشتی کے اکھاڑے میں ہوں۔‘

مدد کو آنے والی خاتون بغیر کسی ہچکچاہٹ کے حملہ آور کی طرف لپکیں اور تین سالہ بچی کو زمین سے اٹھا کر محفوظ طریقے سے اندر لے آئیں۔ ان کے پارٹنر جنہوں نے چپل پہن رکھی تھیں، مشتبہ شخص کے پیچھے گئے، جو سڑک پر بھاگتے ہوئے دور جا چکے تھے۔

خاتون نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں ’مدد، مدد‘ کی آوازیں سن کر باہر آئی۔ میں نے اس شخص کو بچی کو زمین پر پٹختے ہوئے دیکھا، جیسے وہ کُشتی کے اکھاڑے میں ہوں۔ وہ غصے میں تھے۔

’میں جلدی سے آگے بڑھی اور بچی کو تھام لیا۔ میں حملہ آور کی شکل نہیں دیکھ سکی یا یہ کہ وہ کہاں گئے۔ میری توجہ بچی پر تھی۔ میں نے اس پر پانی ڈالا اور ایمبولینس کو بلایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بچی رو رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنا نام بتایا۔ وہ تین سال کی تھی لیکن میں رونے کی وجہ سے اس کی باتیں نہیں سن سکی۔‘

بچی کو ہاتھ لگانے کی وجہ سے کرسٹی کو ہونٹوں اور بازو پر جلن محسوس ہونا شروع ہو گئی اور وہ علاج کروانے ہسپتال گئیں۔ ان کا مزید کہا تھا: ’مجھے امید ہے کہ بچی ٹھیک ہو گی۔ ضرورت پڑی تو میں آئندہ بھی سو فیصد ایسا ہی کروں گی۔ میں اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتی۔‘

ایک عینی شاہد نے اخبار ’دا سن‘ کو بتایا کہ متاثرہ خاتون اور ان کے بچے ایک شخص کے ساتھ تھے کہ یہ جوڑا گاڑی سے اترا اور سڑک پر لڑنا شروع کر دیا۔

’سکائی نیوز‘ نے عینی شاہدین کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ کیا ہے کہ مشتبہ شخص نے ایک بچے کو گاڑی سے باہر نکالا اور اسے فرش پر پٹخ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک خاتون جو مشتبہ شخص کے ساتھ جھگڑ رہیں تھیں، چیخنے لگیں کہ ’میری آنکھیں۔ میری آنکھیں پولیس کو کال کریں۔ میری آنکھیں۔‘

’دا سن‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد مذکورہ شخص مبینہ طور پر دوبارہ کار میں سوار ہوئے اور خاتون کو کچلنے کی کوشش کی۔

عینی شاہد کا کہنا تھا کہ ’چھوٹی بچی کار کے والد کی طرف والے دروازے کو پیٹ رہی تھی۔ خاتون چیخ چلا اور مدد کے لیے پکار رہی تھیں۔

’اس شخص نے دروازہ کھولا، بچی کو باہر نکالا اور اسے دو بار زمین پر دے مارا۔‘

ایک اور عینی شاہد نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ جب انہوں نے خاتون کی مدد کرنے کی کوشش کی تو خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ ’میں دیکھ نہیں دیکھ سکتی، میں دیکھ نہیں سکتی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بہت خوفناک منظرتھا۔‘

جائے وقوعہ کے قریب رہائش پذیر ایک جوڑے نے بتایا کہ وہ سڑک پر دوڑتے ہوئے خاتون کی طرف گئے، جو مدد کے لیے چلا رہی تھیں۔

ایک عینی شاہد نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ’ہم باہر آئے اور اس شخص کو دیکھا۔ انہوں نے ایک لڑکی کو گاڑی سے باہر نکالا اور اسے دو بار زمین پر پٹخا۔

’میں نے سڑک پر آدھے راستے تک اس شخص کا پیچھا کیا لیکن میں نے چپل پہن رکھے تھے، اس لیے زیادہ دور نہیں جا سکا۔

’جب میں واپس آیا تب میں نے اس خاتون کو دیکھا جن پر کسی مادے سے حملہ کیا گیا تھا، اس لیے میں پانی لینے کے لیے اندر بھاگا اور خاتون پر پانی انڈیل دیا۔‘

واقعے کے تمام زخمیوں کو موقعے پر ہی طبی امداد فراہم کی گئی جب کہ پانچ افراد کو ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا۔ تین کو علاج کے لیے مقامی ہسپتال لے جایا گیا اور ایک دوسرے شخص کو موقعے پر ہی جانے کی اجازت دے دی گئی۔

سپرنٹنڈنٹ گیبریئل کیمرون نے جمعرات کو ’اس ہولناک واقعے‘ پر فوری ردعمل دینے والے راہ گیر اور پولیس افسران کو ان کی بہادری پر سراہا۔

انہوں نے کہا: ’31 سالہ خاتون اور ان کی آٹھ اور تین سالہ دو بیٹیاں ہسپتال میں ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کسی کی حالت نازک نہیں ہے، لیکن خاتون اور ان کی بیٹیوں کو آنے والے زخم زندگی تبدیل کردینے والے ہیں اور ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے یہ زخم کتنے سنگین ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’مجھے یقین ہے کہ عوام میرے ساتھ انہیں یاد رکھیں گے اور ہم ان کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’تین خواتین، جن میں سے دو 30 کی دہائی میں اور ایک 50 کی دہائی میں تھیں، اس وقت زخمی ہوئیں جب وہ بہادری سے خاندان کی مدد کے لیے آئیں، سبھی کو معمولی جھلسنے کے زخموں کے ساتھ ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ 50 کی دہائی میں ایک شخص کو معمولی زخم آئے اور انہوں نے ہسپتال میں علاج کروانے سے انکار کردیا۔

’جو پانچ اہلکار جوابی کارروائی میں زخمی ہوئے تھے ان سب کا علاج کیا گیا ہے اور وہ ہسپتال سے جاچکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ واقعے میں استعمال ہونے والا مادہ الکلائن کے طور پر جانا جاتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے انکشاف کیا کہ مشتبہ شخص نے کار میں فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ایک کھڑی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ پیدل ہی فرار ہو گیا۔

’ہمیں یقین ہے کہ مرد اور خاتون ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ہماری تحقیقات ابتدائی مراحل میں ہیں اور ہم یہ جاننے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ یہ خوفناک واقعہ کیوں پیش آیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’برطانوی میٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران اس شخص کو تلاش کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے پارٹنر ایجنسیوں اور فورسز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک ٹارگٹڈ حملہ معلوم ہوتا ہے، لیکن وہ ایک خطرناک شخص ہے اور ہمیں فوری طور پر اسے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جتنی جلدی ہو سکے اس کے بارے میں مزید معلومات جاری کریں گے۔‘

اس سے قبل امدادی کارکنوں نے جائے وقوعہ پر کارروائی کی اور حملے میں استعمال ہونے والے مادے کا پتہ لگانے کے لیے مخصوص آلات استعمال کیے۔ لندن ایمبولینس سروس کا کہنا تھا کہ اس نے خطرناک صورت حال میں کام کرنے والی ٹیم کے ارکان کو جائے وقوعہ پر بھیجا۔

سٹریتھم کی رکن پارلیمان بیل ریبیرو ایڈی نے ان ’مکمل ہیروز‘ کے اقدامات کو سراہا جنہوں نے سب سے چھوٹے بچے کو پکڑنے اور حملہ آور کا پیچھا کرنے میں ہاتھ بٹایا۔

انہوں نے دی انڈینڈنٹ کو بتایا: ’وہ حیرت انگیز ہیں۔ وہ سچے ہیرو ہیں، ایمانداری سے کہوں تو وہ اپنے آپ کو مکمل خطرے میں ڈال کر باہر آئے اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا۔‘

’اب وہ سب ٹھیک ہیں۔ یہ صرف عورت اور اس کے بچے ہیں جن کی چوٹیں شدید ضرور ہیں لیکن جان لیوا نہیں ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگ مکمل طور پر ہیرو ہیں، انہوں نے ایک بار بھی اپنی حفاظت کے بارے میں نہیں سوچا۔‘

کسی شہری کے پاس اس واقعے کے بارے میں معلومات ہونے کی صورت میں انہیں 999 پر اطلاع دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا