انڈیا میں وارانسی شہر جہاں ہندو دریائے گنگا کے کنارے اپنے مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں، یہاں اب ہندوؤں کی جانب سے صدیوں پرانی اسلامی یادگاروں پر قبضے کے لیے لڑائی جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسلامی عمارتوں پر قبضے کی مہم چلانے والوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی شکل میں نظریاتی سرپرست مل گیا ہے۔
مودی نے گذشتہ ماہ بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عظیم الشان نئے مندر کا افتتاح کیا۔ دہائیوں پہلے ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو تباہ کر دیا تھا۔
78 سالہ یٰسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم جبر اور ظلم کا سامنا کر رہے ہیں۔
’یہ صرف ایک مسجد کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان (ہندوؤں کا نعرہ ہے کہ ’ایک بھی مقبرے یا مسجد کو نہیں بخشا جائے گا)۔‘
یٰسین، گیان واپی مسجد کی انتظامی کمیٹی کے جوائنٹ سیکریٹری ہیں۔ بنارس کے وسط میں واقع اس مسجد میں مسلمانوں کے سب سے بڑے اجتماعات میں سے ایک اجتماع ہوتا ہے۔
شہر کے ہندوؤں کا طویل عرصے سے یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ گیان واپی مسجد مغل سلطنت کے دوران ہندو دیوتا شیو کے مندر کی جگہ تعمیر کی گئی۔ مغلوں نے صدیوں پہلے انڈیا کے زیادہ تر حصوں پر حکمرانی کی۔
مسلمان نمازی کئی سال سے پولیس کی نگرانی میں مسجد میں جا رہے ہیں تاکہ تنازعے کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ تاہم رواں ہفتے جھگڑے میں شدت آئی کیوں کہ مقامی عدالت نے اپنے فیصلے کے سات دن کے اندر مسجد کے تہہ خانے کو ہندوؤں کے لیے کھولنے کا حکم دیا۔
اگلی صبح وہاں ہندوؤں کی مذہبی تقریب منعقد ہوئی۔ انڈیا کی سپریم کورٹ نے مسلم درخواست گزاروں کی جانب سے مقامی عدالت کا حکم کالعدم قرار دینے کی درخواست کو سننے سے انکار کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یٰسین کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے اور اس کے بعد مسجد کے مقام پر پوجا کے لیے بلاروک ٹوک آنے والے ہندوؤں کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے دعوے کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے جس سے انہیں (یٰسین کو) کو بہت پریشانی ہے۔
یٰسین کے بقول: ’وہ (ہندو) عدالتوں اور نظام کے ذریعے آ رہے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں جو بھی تکلیف محسوس کر سکتا تھا میں نے اسے محسوس کیا۔ میں ساری رات بے چین رہا۔‘
جمعے کو مسجد کے باہر کشیدگی واضح تھی۔ پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی اور تقریباً ڈھائی ہزار مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچے جو تعداد میں معمول سے تقریباً دگنے تھے۔
درجنوں ہندو عقیدت مند پولیس کے حفاظتی حصار کے باہر سڑک پر جمع ہو گئے اور شیو کے نعرے لگائے جو ان کے مذہب کے مطابق تخلیق اور تباہی دونوں کے دیوتا ہیں۔
2014 میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملک کے سرکاری طور پر سیکولر نظام کو ختم کر کے اسے ہندو ریاست بنانے کے مطالبات میں شدت آئی ہے کیوں کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے ہندو مقاصد کی حمایت گذشتہ ماہ اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب انہوں نے ایودھیا میں نئے تعمیر کیے گئے مندر کی افتتاحی تقریب کی صدارت کی۔ بنارس کے قریب واقع یہ قصبہ پرسکون ہوا کرتا تھا۔
24 کروڑ ڈالر کی تخمینہ لاگت سے تعمیر ہونے والے مندر کے وسیع کمپلیکس کا افتتاح اہم تقریب تھی جس پر عوامی سطح پر خوشی کا اظہار کیا گیا جب کہ ذرائع ابلاغ نے ہفتوں اسے نشریات میں جگہ دی۔
مودی نے اس تقریب کو ’غلامی کی زنجیروں‘ سے انڈیا کی آزادی کے لیے فیصلہ کن لمحہ قرار دیا لیکن انڈیا کی 21 کروڑ سے زیادہ مسلمان آبادی میں سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تقریب ان کی بڑھتی ہوئی پسماندگی کی ایک اور علامت ہے۔
نیا رام مندر پانچ سو سال پرانی بابری مسجد کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ بابری مسجد کو 1992 میں مودی کی حکمران جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کی قیادت میں ایک مہم کے دوران ہندو انتہا پسندوں کے ہجوم نے منہدم کر دیا تھا۔
اس کے بعد ہونے والے فسادات ہندوستان کی آزادی کے بعد سے بدترین فسادات تھے۔ ملک بھر میں دو ہزار لوگوں کی جان گئی جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔
سرگرم ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ بابری مسجد مغل سلطنت کے دوران ہندو دیوتا کے مندر کی جگہ تعمیر کی گئی۔ مہم میں شامل ہندو مغل دور کو ایک ایسے دور کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں ان کے مذہب پر ظلم کیا گیا۔
ہندو مقاصد کی طویل عرصے سے وکالت کرنے والے سوہن لال آریہ نے کہا کہ وارانسی میں ہندوؤں کے لیے پوجا کا مقام کھولنے کا عدالت کا فیصلہ تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کی مہم میں ’آگے کی طرف ایک قدم ہے۔‘
72 سالہ آریہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔‘
’انہوں (مغل حکمرانوں) نے ہمارے مقدس مقامات کو تباہ کر کے مسجد بنا دی۔ ہمارے شواہد درست ہیں۔ اسی لیے ہمیں عدالتوں پر پورا بھروسہ ہے۔‘