’یہ دنیا پاگل خانہ ہے اور ہم قیدی ہیں‘ ڈراما اس مکالمے کی کہانی ہے اور دنیا جیسی وسعت کی حامل ہے۔
پاگل خانہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا تجربہ ہے جس میں باقاعدہ نفسیاتی مسائل، نفسیاتی امراض، نفسیاتی رویوں پہ بہت گہری بات ہے، جس کا بنیادی موضوع ہی نفسیاتی امراض ہیں، اس میں سب کردار نفسیاتی بیمار ہیں یا ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف ہیں۔
اس قبل اس مکمل موضوع کو اس طرح شاید قلم بند و عکس بند نہیں کیا گیا۔
ایک فرضی سی آئیڈیل کہانی ان سب کرداروں کے گرد بنائی گئی ہے، جس میں معاشرے کے تقریبا ً11 شعبہ جات سے نمائندہ کردار اٹھائے گئے ہیں۔ ان کو پاگل خانے پہنچایا گیا ہے۔ اس کے بعد ایک نفسیاتی ادارہ 11th کلب بنایا گیا جو اسلام آباد کی خوبصورت لوکیشن میں ہے۔
اس ادارے کا مقصد ہے کہ وہ افراد جو زندگی کی طرف واپس آ سکتے ہیں ان کا علاج کر کے انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنایا جائے اور واپس انہیں معاشرے کے سپرد کر دیا جائے۔
اس کے بعد ادارہ نئے مریضوں کا علاج شروع کرے گا۔ ادارے میں پاگل خانوں جیسا روایتی ماحول نہیں ہے۔
تین ڈاکڑز ہیں جو ادارے میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر بہرام، ڈاکٹر پریشہ اور ڈاکٹر ماریہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مریض نارمل زندگی کی طرف واپس آجائیں۔
ان ڈاکٹرز کو جن بنیادی نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرنا ہے اس میں OCD، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آڈر شامل ہیں۔
جن شعبہ جات کا انتخاب کیا گیا ہے اس میں عاشق، روحانیت سے منسوب فرد، فن کار، ایک سکول کا ہید ماسٹر، ایک اداکارہ و ماڈل، ایک انسپیکٹر، ایک گارڈ، ایک سنگر شامل ہیں۔
یہ سب کردار حساس ہیں۔
کسی بھی کام کا جنون انسان کے رویے کو غیر متوازن کر دیتا ہے۔
یہ سب کردار غیر متوازن ہو کر پاگل خانے پہنچ جاتے ہیں۔ پاگل خانوں سے ان منتخب حساس مریضوں کو اس کلب میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
ڈرامے میں ان سب کی کہانیاں ایک، ایک کر کے کھل رہی ہیں، جن میں زندگی کی طرح کہیں دلچسپی کم نہیں ہو رہی۔
ہر کردار اپنے اندر مکمل ہے اور اپنے اندر پورا سماج رکھتا ہے۔
ڈرامے کا بنیادی خیال تو محبت ہی ہے، رومانی ڈراما ہے ایسی کہانی محبت کے گرد ہی بنی جا سکتی ہے۔
محبت میں عشق غیر متوازن صورت ہے۔ مرکزی کردار مبتلا عشق ہے، نشہ عشق سے کردار پیچیدہ ہوتے ہیں۔
نور کو سلمان سے عشق ہو گیا ہے۔ نور کو تصوف سے شدید لگاؤ ہے اور وہ صوفیانہ کلام کرتی ہے، اسے اپنے والد سے بھی عشق تھا۔ اس نے والد سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کبھی اس دنیا کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے مگر وہی زندگی کسی کی نہیں ہوتی عین اس دن جب وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی پی ایچ ڈی کی خوشی منا رہے تھے اس دن ان کا انتقال ہو گیا۔
وہ اس صدمے سے نکل نہ سکی تھی کہ سلمان کے چھوڑ جانے نے ان کو شدید ذہنی دھچکا دیا۔
سلمان کی کزن، جو اس کی بڑی بہن ہے، نے سلمان اور نور کے رشتے سے انکار کر دیا۔ سلمان کے والدین نہیں ہیں اور بقول نور کے اس کی کزن کرن نے ’دولت سے شادی کی ہوئی ہے۔‘
دولت بھی ایک جنون ہے۔ ایک محبت کی کہانی سکول ماسٹر کی چل رہی ہے۔ جو 2005 کے زلزلے میں بچ گیا تھا۔
اس کی ایک کزن بھی بچ گئی تھی۔ دونوں بالا کوٹ سے پنجاب کے دیہات میں آ کر بس گئے۔ گاؤں کے نمبردار کی بہن سے ماسٹر جی کی وٹہ سٹہ کی منگنی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زلزلے میں سکول ماسٹر کی بہن تو دنیا فانی چھوڑ گئی اور نمبردار نے اپنی بہن رقیہ کسی اور جگہ بیاہ دی۔
رقیہ کی جلد طلاق بھی ہو گئی۔ اب وہ ماسٹر صاحب سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر نمبردار نے اپنی طاقت سے پہلے اس کی کم عمر کزن کا رشتہ بدلے میں مانگا ہے، ماسٹر کے انکار کے بعد اسے پنچائت لگا کر رسوا کیا اور جیل بھیج دیا۔
وہاں سے پاگل خانے اور پھر اس ادارے تک آیا۔
تیمور علی خان اپنی بیوی کو بھول چکا ہے مگر بیوی سے نفرت کے طور پر یاد بھی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اس کی بیوی اس کی دولت سے محبت کرتی ہے جبکہ کہانی میں یہ بھی ٹویسٹ آگیا ہے کہ یہ اتنا بڑا کاروبار بیوی کے والد کا ہی تھا جو ان کی وفات کے بعد اس کا نگران بنا اور مالک بن بیٹھا۔
تیمور علی خان کو اپنے اہم ہونے کا جنون کھا گیا
یونہی ایک انسپکٹر کو اپنے پروفیشن کا جنون لے ڈوبا تو ایک فن کار ہے جسے لوگ مراثی کہتے ہیں۔ اسے اس کے فن نے کہیں کا نہ چھوڑا۔
ٹینا ایک اداکارہ و ماڈل ہے اور اسے اپنے حسن اور فینز کا کریز ہے۔ کوئی رومانی سی خود کشی کی موت مرنا چاہتی ہے اور کئی بار خود کشی کی کوشش کر چکی ہے۔
بنیادی طور پر یہ حساس قبیلہ کے لوگ دکھائے گئے ہیں جو دنیا کے روئیوں کا مقابلہ نہیں کر سکے اور اپنا ذہنی توازن کھو گئے۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کہ حساس افراد کی کہانی لکھی اور پیش کر دی گئی بلکہ اس کی وسعت کو، پہلے ملک سے، سماج سے ضرب کر کے دیکھیں تو یہ ایک 11 کھلاڑیوں کی ٹیم ہے جن کا اسلام آباد میں ایک ادارہ بنا کر علاج کیا جا رہا ہے۔
اسے علامتی رنگ سے دیکھیں تو آج کے دور کا علامتی ڈراما بن جائے گا۔ جیسے ہی اسے علامتی ڈراما کے طور پہ دیکھیں تو مکالمے سب سے زور دار ہیں۔
’آزادی کے بعد توپ کے آگے باندھوں گا تمہیں‘
’بلوا ہو گیا ہے‘
ڈرامے میں مریض ہی نہیں ڈاکٹرز بھی کسی حادثے سے نفسیاتی عارضے میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر بہرام کو آگ سے کچھ نفسیاتی مسائل لاحق ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر پریشہ کو انسانوں کی خدمت کا جنون ہے۔ اس کے والد سیاست میں ہیں مگر اس کا غیر قانونی ساتھ نہیں دیتے نہ وہ سفارش کروانا چاہتی ہے۔
انسان کو اس کے گمان جیسا ملتا ہے: اس جملہ سے ڈاکڑ پریشہ اور نور کو دیکھیں تو یہی لگتا ہے۔ نور کو لگتا تھا کہ اگر سلمان اسے نہ ملا تو اسے کچھ ہو جائے گا تو آخر کار پاگل خانے تک پہنچ گئی۔ 11th کلب بنانا ڈاکٹر پریشہ کا آئیڈیا تھا جہاں حساس مریضوں کا علاض کیا جائے اور ان کو سماج میں دوبارہ شامل کر دیا جائے۔
اس کا آئیڈیا چوری ہو گیا اور وہ بیرون ملک سے پڑھ کر واپس آئی تو اسی کلب میں اپنا جنون پورا کرنے کا موقع مل گیا۔
وہم ایک بیماری ہے۔ انسان کو لگ جائے تو وہ ذہنی مریض بھی بن جاتا ہے۔
نور کو وہم تھا کہ اسے سلمان کے بنا کچھ ہو جائے گا اور وہ آخرکار جنون میں پاگل خانے پہنچ گئی۔
چھ اقساط تک ایک رشتہ تجسس بنا رہا۔ کرن اور سلمان کا تعلق، وہ دیکھنے میں میاں بیوی لگ رہے تھے کہ اچانک ایک قسط میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو اس کی کزن ہے اور اس نے سلمان کو پالا ہے اور وہ اس کی شادی کسی صنعت کار کی بیٹی تانیہ سے کرنا چاہتی ہے۔
جس دن سلمان و تانیہ کی منگنی ہے نور کرن پہ پستول چلا دیتی ہے۔ گولی تو اسے نہیں لگتی، سلمان کو لگ جاتی ہے لیکن ڈراما میں مزید دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
ایک ناظر کو جس ڈرامے نے نیم مدہوش کیا ہوا ہے سوچنے کی بات ہے اس کے مصنف اور ڈائریکٹر اقبال حسن پہ کیا بیتی ہو گی۔
مجموعی طور پر یہ ایک بھرپور منفرد نفسیاتی کاوش ہے۔ بڑی اور بھاری کاسٹ کا ڈراما ہے تمام سینیئر اداکار مرکزی کاسٹ میں شامل ہیں۔
صبا قمر تو لیڈنگ کردار ہیں۔ ان کی اداکاری پہ بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے لیکن مشال خان نے بھی ٹینا کا کردار جی جان سے نبھایا ہے۔
صاحبہ اور ریمبو بہت عرصہ بعد اکھٹے دکھائی دیے ہیں۔ صاحبہ کے آنے سے سکرین سج جاتی ہے۔ ایسے دلفریب دیہات بھی اب پنجاب میں بہت کم رہ گئے ہیں جن سے سکرین اور زندگی بھر جاتی تھی۔
ایسا اچھوتا ڈراما گرین اینٹرٹینمنٹ سے ہی نشر ہو سکتا تھا جو بہت کم وقت میں ڈراما کی صنعت میں انقلاب بپا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
دیکھتے رہیے پاگل خانہ کہ ’یہ دنیا پاگل خانہ ہے اور ہم سب قیدی ہیں‘ اس میں کوئی کردار ہمارا بھی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔