’نمک حرام‘ اور جادوگر کا طوطا

اس غرور کی ایک اپنی بھی نفسیات ہوتی ہے جس میں من کی مان لی جاتی ہے کیونکہ تن والے تو سارے کمزور ہوتے ہیں اورکمزور کو نمک حرامی فاقوں تک بھی لے جا سکتی ہے۔

کہانی میں ٹھہراؤ نہیں ہے، یہ انتقام کی آگ کی طرح تپ رہی ہے۔ وہی تیزی جو جنگل کی آگ میں ہوتی ہے (انسٹاگرام، ہم ٹی وی)

جادوگر کی اصل جان طوطے میں ہوتی ہے۔ ایسی کہانیاں بچپن سے پڑھ کے ہم بڑے ہوتے ہیں مگر اس بات کی گہرائی سمجھ ہی نہیں پاتے۔

ڈراما ’نمک حرام‘ ایک ایسا ہی شاہکار ہے جس میں جادوگر کا طوطا ہیرو ہے۔

طاقت کے ایوانوں میں اصل طاقت ایک باوفا خاندانی ملازم کی ہوتی ہے، ان کی بنیاد پہ بڑے بڑے راج واڑے قائم ہیں۔ اس کی بنیاد پہ طاقت کا تمام نظام چل رہا ہے۔ اگر ان محلوں کے اندر بغاوت ہو جائے تو کوئی بھی محل کی شان و شوکت کو شکست دے سکتا ہے اور اسے تاریخ میں بدل سکتا ہے۔

اس غرور کی ایک اپنی بھی نفسیات ہوتی ہے جس میں من کی مان لی جاتی ہے کیوں کہ تن والے تو سارے کمزور ہوتے ہیں اورکمزور کو نمک حرامی فاقوں تک بھی لے جا سکتی ہے۔

کمزور کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے جو یہاں دکھائی دے گی۔ انسان تب تک ناتواں ہوتا ہے جب تک وہ اپنی  قوت کو پہچان نہیں لیتا۔

مرید، امین قریشی کا ایسا ہی قابل اعتبار نمک حلال و نمک حرام ہے، جس پہ وہ شک بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کبھی دھوکا دے گا۔ اس نے مرید کے بچپن سے اسے پرکھا ہے کہ وہ وفادار ہے یا نہیں۔

امین قریشی محل کی روایت کے مطابق جوانی کے جلال میں ایک روز یونہی مرید کی ماں کا ریپ کر دیتا ہے۔ مرید دیکھ لیتا ہے لیکن وہی کمزور مخلوق اور آٹھ سال کا بچہ کر ہی کیا سکتا تھا۔

اس کی ماں نے اس صدمے سے خود کشی کر لی۔

مرید اسما اور ایمل کے ساتھ حویلی میں ہی پلا بڑھا لیکن اس کا مرتبہ وہی رہا جو اس کے باپ دادا کا تھا۔ مرید چھوٹا سا تھا تب ایک بار امین قریشی نے اسے گھر سے نکال دینے کی کوشش بھی کی مگر اس کی چھوٹی بیٹی ایمل مسیحا بن گئی اور وہ اسی گھر میں رہنے لگا۔ یوں بچپن کا ایک احسان مرید کے سر پہ تھا مگر اس کے اندر کا باغی کبھی نہ مرا، اس کی ماں کی موت کا زخم ہمیشہ ہرا ہی رہا۔

ایمل کو بڑے ہوتے ہوتے مرید سے محبت بھی ہو گئی۔ اس نے اظہار محبت بھی کر دیا مگر مرید بے بس تھا۔ اسے اپنے مقام کا بھی علم تھا اور حویلی کی شان کا بھی اندازہ تھا، اس سے بڑھ کر وہ اپنے اندر کے باغی کے سامنے مجبور تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسما البتہ بالکل حویلی کے روایتی رنگ میں رنگی لڑکی تھی۔ وہ مرید سے پردہ بھی کرتی تھی۔ اس کی شادی پہ مرید کے اندر کا باغی جاگ گیا، جس کے سامنے وہ بے بس ہو گیا۔ اسما دلہن بنی حویلی سے غائب ہو گئی اور پھر کسی طرح پولیس کی مدد سے مل بھی گئی مگر اس کی بارات تو واپس جا چکی تھی۔ سماج میں اس حویلی کی عزت کا ایک ستون گر گیا تھا۔

اس سارے واقعے میں کسی کا بھی شک مرید پہ نہیں گیا۔ اس دوران امین قریشی کو دل پہ بوجھ کی وجہ سے ہسپتال بھی جانا پڑا اور وہ اپنی بیٹی اسما سے متنفر بھی ہو گیا۔

اب اس کو ملائکہ جو امین قریشی کی زرخرید خاتون کے طور پہ کسی پوشیدہ تعلق میں ہے، مشورہ دیتی ہے کہ اسما اور مرید کا نکاح کر دیا جائے۔ گرچہ اس مشورے میں ایک نکاح میں دوسرا نکاح چھپا ہوا تھا۔ امین قریشی کو کمزور لمحے کی یہ بات درست لگتی ہے۔ اسما بے گناہ اس سارے انتقام کے کھیل میں مہرہ بن گئی ہے۔ ایمل بھی اس کی نذر ہو گئی کہ وہ اپنی محبت ہار جاتی ہے۔ ارسل جو ایمل کا کزن ہے، اسے بھی ایمل کی مرید سے محبت کا علم ہو جاتا ہے۔

اسما سے نکاح کے ساتھ ہی مرید امین قریشی کے برابر آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایک کہانی اس میں ابھی ابھر رہی ہے۔ وہ مصطفیٰ بھائی کی زندگی کی ہے جو مرید کا اکلوتا و مخلص دوست ہے اور انتقام کی راہ کا ساتھی ہے۔

ملائکہ نے موقع دیکھتے ہی امین قریشی سے رشتے میں آ جانے کی بات کر لی ہے ۔

کہانی میں ٹھہراؤ نہیں ہے، یہ انتقام کی آگ کی طرح تپ رہی ہے۔ وہی تیزی جو جنگل کی آگ میں ہوتی ہے۔ مصنف ثقلین عباس ہیں۔ مکالمے بہت جاندار اور فلسفہ زیست و ذہانت کے آئینہ دار ہیں۔ ڈائریکٹرشکیل خان ہیں۔

عمران اشرف کی اداکاری کے بارے میں بس ایک جملہ کافی ہے ’عمران اشرف آپ چھا گئے ہیں۔‘

ڈراما ایم ڈی پروڈیکشن کا ہےاور ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔

ڈرامے کے ڈائریکٹر شکیل خان سے ہمارا سوال تھا کہ کہانی کی بنت کس ثقافت پہ ہوئی ہے کیونکہ ایک ملا جلا تہذیبی ملاپ دکھائی دیا ہے تو شکیل خان نے بتایا کہ ’بنیادی طور پہ شہری ماحول دکھانے کی کوشش کی گئی ہے جس میں بظاہر پڑھے لکھے لوگ رہتے ہیں لیکن یہ روایات سے بہت گہرے جڑے ہوئے ہیں۔

’بنیادی خیال طاقتور گھرانوں سے لیا گیا ہے جہاں دولت تو کثرت سے ہے لیکن روایت پرستی بھی بکثرت موجود ہے۔ ہم نے کسی صوبے یا کسی جگہ کی تہذیب کو نہیں دکھایا جیسے ماڈرن ٹیلی ویژن تہذیبی رنگ کی جگہ جنرل تاثر دیتا ہے تاکہ ہر کوئی اسے خود سے جوڑ سکے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’ہمارا رائٹر فیصل آباد سے ہے، ہو سکتا ہے انہوں نے پنجاب سے انسپریشن لی ہو، لیکن ہم نے اس (ڈرامے کو) کسی علاقے میں قید نہیں کیا۔‘


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی