’مناظرہ کرنا تھا، معاہدہ ہو گیا‘: پی ڈی ایم 2.0 کے چرچے 

آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر تمام جماعتوں کو ایک ساتھ دیکھ کر سوشل میڈیا صارفین نے اسے ’پی ڈی ایم 2‘ کا نام دیا ہے۔ 

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 20 فروری 2024 کو لاہور میں آئندہ حکومت کے لیے سیاسی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے (ویڈیو سکرین گریب/ پاکستان پیپلز پارٹی ایکس اکاؤنٹ)

مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان حکومت سازی کے لیے منگل کی شب معاملات طے پا گئے، جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کے شہباز شریف وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری صدر مملکت کے متفقہ امیدوار ہوں گے اور اسی کے ساتھ  ایکس پر ’پی ڈی ایم 2‘ ٹرینڈ کرنے لگا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان کی حکومت کے خلاف پاکستان میں 2020 میں سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد قائم ہوا تھا، جسے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کا نام دیا گیا تھا۔

اس اتحاد نے اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس کے بعد 16 مہینے تک وفاق میں حکومت بھی کی۔ اب آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد ایک بار پھر تمام جماعتوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت سے سوشل میڈیا صارفین اور عام لوگوں نے اسے ’پی ڈی ایم 2‘ کا نام دیا ہے۔ 

تحریک انصاف کے رہنما مونس الٰہی نے اس سیاسی اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے لکھا: ’پی ڈی ایم 2.0 بن گئی ہے، اس ٹولے نے عوام کا مینڈیٹ چوری کیا ہے، پچھلی دفعہ تو چورچور کے نعرے شاید اتنے نہیں لگے جتنے ان کو اس بار سننے پڑیں گے۔‘ 

پی ٹی آئی کے ارسلان خالد نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’پی ڈی ایم کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ ایک چیز جو میں پہلے ہی دیکھ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ بلاول مسلم لیگ ن کے لیے اپوزیشن لیڈر کی طرح کام کرنے کی کوشش کریں گے، ہاں وہی مسلم لیگ ن جس نے ان کے والد کو صدر بنایا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید لکھا: ’آج پاکستانی بہت مایوس ہوں گے کیونکہ وہ اس چھوٹی سی خوشی کو لوٹتے ہوئے محسوس کریں گے کہ ان کے ووٹوں کی اہمیت کیا تھی۔‘ 

انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کئی بار مسلم لیگ ن کو مناظرے کا چیلنج دیا تھا، تاہم اب انتخابات کے بعد ان کے سیاسی اتحاد پر عمر نامی صارف نے لکھا: ’مناظرہ کرنا تھا، معاہدہ ہو گیا‘ 

احمد وڑائچ نے اس صورت حال پر تبصرہ کیا: ’شہباز شریف صاحب لاڑکانہ کی سڑکوں پر تو نہ گھسیٹ سکے، حسرت ہی رہ گئی لیکن صدر کے لیے ووٹ دینے کا اعلان کر دیا۔ بلاول بھٹو بھی اب شاید قومی اسمبلی میں مناظرہ کریں۔‘ 


نادیہ مرزا نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا: ’بہتر ہے کہ پی ٹی آئی اپوزیشن میں بیٹھ کر تگڑی اپوزیشن کرے اور ان کو بتائے کہ حکومت ہے، حلوہ نہیں جو مل بانٹ کر کھا لیا جائے، ڈیلیور کرنا پڑے گا۔‘ 

انہوں نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ ’یاد رکھیں کہ میڈیا اپوزیشن کے ساتھ ہوتا ہے اور حکومت کا نقاد۔‘ 

صارف سامعیہ ظفر نے اپنی پوسٹ میں ناامیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہم پچھلے تین سالوں سے دائروں میں گھوم رہے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ ہماری حالت زار کو جادوئی طور پر بدل سکتا ہے۔‘ 

انہوں نے لکھا: ’انتخابات پر اتنا پیسہ ضائع کیا، صرف دوبارہ تصدیق کے لیے کہ پی ڈی ایم کو اکثریت نہیں چاہتی، پھر بھی ہمیں یہاں پی ڈی ایم 2 ہی ملی، اللہ ہی ہماری مدد کرے۔‘ 

حسن نامی صارف نے بھی پی ڈی ایم اتحاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا: ’ہمارے پاس فرسودہ، رجعت پسند اور غیر انسانی اقدار کا نظام ہے جہاں لوگوں کی رائے اور فیصلوں کو بے رحمی سے مسترد کر دیا جاتا ہے۔‘ 

مسلم لیگ ن نے اپنے آفیشل پیج پر کی گئی ایک پوسٹ پر ’ریکور پاکستان‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی سے سیاسی اتحاد کے مقصد کے حوالے سے لکھا: ’مشن واضح ہے، نیازی کی تباہی اور لوٹ مار کے کھنڈرات سے پاکستان کو نکالنا۔‘ 

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے اس اتحادی حکومت پر اینکر ندیم ملک کو اپنا موقف کچھ یوں دیا کہ ’پاکستان اس وقت جس صورت حال میں ہے، ایسے میں ریاستی سلامتی کا تقاضا ہے کہ جلد از جلد حکومت بنے۔ بغیر حکومت بنے معاملات آگے نہیں چل سکتے۔ پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے کہ مسلم لیگ ن حکومت بنا رہی ہے۔‘ 

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ