طاہر القادری کے بعد پاکستان عوامی تحریک کا مستقبل کیا ہو گا؟

عوامی تحریک نے صرف 1990 اور 2002 کے انتخابات میں ہی حصہ لیا اور ڈاکٹر طاہر القادری لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی اور آخری بار منتخب ہونے والے پارٹی کے واحد امیدوار تھے۔

عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاست سے مستعفی ہونے کے بعد اس سیاسی جماعت کا مستقبل زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتا لیکن پھر بھی دیگر عہدیدار اس مشن کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔(اے ایف پی)

80کی دہائی میں  ڈاکٹر طاہر القادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے وہ ماڈل ٹاون کی مسجد میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس دوران ان کی صنعتی اورسیاسی گھرانے شریف خاندان کے ساتھ قربت بڑھی اور انہیں اس خاندان میں خصوصی اہمیت حاصل رہی۔

منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے مطابق 19فروری 1951 میں پنجاب کے شہر جھنگ میں پیداہونے والے ڈاکٹر طاہر القادری نے منہاج ویلفئر فاونڈیشن، عوامی تعلیمی منصوبہ منہاج یونیورسٹی قائم کی اور 25 مئی 1989 میں عوامی تحریک کی بنیاد رکھ کر عملی سیاست میں آئے۔

سیاسی پس منظر:

عوامی تحریک کی بنیاد رکھنے بعد وہ سیاسی میدان میں سرگرم رہے لیکن ڈاکٹر طاہرالقادری کو ملکی سیاست میں اس وقت نمایاں طور پر جانا گیا جب انہوں نے 2008 میں بننے والی پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لاہورسےاسلام آباد مارچ کیا اور انقلاب لانے کے دعوے پرجنوری کے ماہ میں سخت سردی کے باوجود کئی دن تک دھرنا دیئے رکھا۔ اس دھرنے میں متعدد بچے اور خواتین سردی سے بیمار بھی ہوئے تھے۔

2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ ان کی جماعت نے صرف 1990 اور 2002 کے انتخابات میں ہی حصہ لیا اور ڈاکٹر طاہر القادری لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست پر پہلی اور آخری بار منتخب ہونے والے پارٹی کے واحد امیدوار تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منتخب ہونے کے بعد 4 اکتوبر 2004 میں ڈاکٹر طاہر القادری نے سابق صدر پرویز مشرف کے آرمی چیف اور صدر پاکستان کے عہدے بیک وقت اپنے پاس رکھنے کے خلاف احتجاجاً بحیثیت رکن قومی اسمبلی استعفی دے دیا۔ ان کے اس اقدام کو بھی سیاسی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔

جب پی ٹی آئی نے 2013 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی مسلم لیگ ن کی جمہوری حکومت کے خلاف 2014-15میں لاہور سے اسلام آباد تک مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف 14اگست کو آزادی مارچ کیا اور اسلام آباد میں 126دن دھرنا دیا تو عوامی تحریک نے اس میں بھی ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ جب کہ عوامی تحریک نے انتخابات میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔

اسی مارچ کی روانگی سے چند ہفتے قبل ماڈل ٹاؤن لاہورمیں مرکزی عوامی تحریک، پولیس اور پی اے ٹی کے کارکنوں میں جھڑپ ہوئی تھی جس میں پولیس پر 13 افراد کے قتل کا الزام لگایا گیا اور انصاف نہ ملنے کی بنیاد پر آزادی مارچ میں عوامی تحریک بھی شامل ہوئی۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں پر پارلیمنٹ کا گھیراؤ اور پی ٹی وی حملے کا مقدمہ بھی درج ہوا۔

اسی دوران وزیر اعظم عمران خان نے ان کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر انہیں اپنا سیاسی کزن بھی بنایا تھا۔ اس دھرنے کو سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی کا مرکزی صدر ہوتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران سٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے جمہوریت کے خلاف سازش ہونے دعوی کیا تھا۔

ان کی پریس کانفرنس کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے استعفی کے مطالبہ کی شدت میں بھی کمی آ گئی تھی کیونکہ دیگر بڑی سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں متحد ہوگئیں تھیں۔ اس دھرنے کے دوران عمران خان اور طاہر القادری کو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جی ایچ کیو بھی بلایا تھا۔ جس کے فوری بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہوکر خطاب میں کہا تھا جرنل راحیل شریف کہتے ہیں نواز شریف استعفی دینے کو تیارنہیں۔

یہ سیاسی طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں عوامی تحریک کی پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر آخری بڑی احتجاجی تحریک تھی۔ اس کے بعد 2018کے انتخابات میں بھی عوامی تحریک نے حصہ نہیں لیا۔

عوامی تحریک کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟

عوامی تحریک کے بانی ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاست سے مستعفی ہونے کے بعد اس سیاسی جماعت کا مستقبل زیادہ روشن دکھائی نہیں دیتا لیکن پھر بھی دیگر عہدیدار اس مشن کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔

عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عوامی تحریک اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ذاتی مصروفیات کے باعث سیاست سے علیحدہ ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا پارٹی کو مجلس شوری چلاتی رہی ہے اب بھی وہی چلائے گی اور باقی عہدے دار پہلے کی طرح کام کرتے رہیں گے۔ اہم معاملات پر ڈاکٹر طاہرالقادری سے اب بھی مشاورت جاری رہے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ آنے والے تمام انتخابات میں تحریک بھرپور حصہ لے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی پارٹی ٹکٹ پر امیدوار کھڑے کیے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت کسی جماعت سے اتحاد دائمی نہیں لیکن آنے والے وقتوں میں موقع کی مناسبت سے سیاسی فیصلے کریں گے۔

ان کے خیال میں ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاست چھوڑنے کا اعلان عوامی تحریک کی سیاست پر اثر انداز ضرور ہوگا لیکن پھر بھی جماعت کو منشورکے مطابق چلانے کی کوشش جاری رکھیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان