آٹھ فروری کو جس ڈرامے کا آغاز ہوا اس میں پِیک تو نو فروری کو ہی دیکھنے کو ملا، جب پاکستان کی تقریباً ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت نے بیک وقت جیت کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ دھاندلی کا رونا بھی پیٹنا شروع کیا لیکن معاملہ ابھی یہاں رکنے والا نہیں۔
تحریک انصاف دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کر کے اس بات پر مصر ہے کہ اس کی تقریباً 90 نشستیں چرائی گئی ہیں لیکن ان سیٹوں میں تقریباً نصف پر سرے سے الیکشن کمیشن کے پاس کوئی شکایت ہی درج نہیں کرائی گئی۔
ن لیگ جو کہ اب قومی اسمبلی کی اکثریتی جماعت بن چکی ہے لیکن وہاں نوازشریف کیمپ سے جڑے ہارنے والے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ انہیں باقاعدہ ہدف بنا کر الیکشن ہروایا گیا۔
میاں جاوید لطیف کے حالیہ بنایات اٹھا کر دیکھیں جو کہ گلہ اور سوال یہ کر رہے ہیں کہ آٹھ فروری کے الیکشن اور نو فروری کی ’سلیکشن‘ میں قرعہ فال ان کے نام کیسے نہ نکل سکا۔
مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کا بھی عجب حال ہے۔ وہ اپنے مینڈیٹ چھیننے کا گلہ کر رہے ہیں لیکن مولانا، ان کے بیٹے اور بھائی اپنے سٹرانگ ہولڈ جنوبی پختونخوا میں اس تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہارے، جس سے انہوں نے الیکشن کے فوراً بعد دھاندلی کے خلاف ہاتھ ملانے کی بات کی۔ لیکن انہیں ہارنے کا گلا آصف علی زرداری اور نواز شریف سے ہے۔
ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی، سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ، پیر پگاڑا اور جماعت اسلامی بھی سراپا احتجاج ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے۔
فارم 45 اور 47 کی درجنوں شکایات اصلی ہیں۔ خصوصاً گذشتہ کالم میں پشاور کے چند حلقوں کے بارے میں تفصیلاً تحریر کر چکا ہوں جہاں لگ بھگ چھ امیدوار شام پانچ بجے تک ہونے والی پولنگ کے نتائج میں جو جیت گئے لیکن پھر صبح چھ بجے فارم 45 نےاپنا ووٹ فارم 47 کے حق میں استعمال کر کے ان امیدواروں کو نو دو گیارہ ہی کروا دیا۔
لیکن یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ شکایات کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جس میں فریاد کرنے والے کی دہائی یہ نہیں کہ مجھے کیوں ہروایا گیا یا میرا مینڈیٹ کیوں چھینا گیا بلکہ شدید غصے میں مقتدرہ کو سنا رہا ہے کہ جب میں دل کی گہرائیوں سے صرف آپ سے ہی آسرا لگا بیٹھا تھا تو مجھے جتوایا کیوں نہیں۔
اس پوری بحث کی تمہید باندھنا اس لیے ضروری تھا کہ اس مقدمے کو ایک دفعہ پھر زور دے کر بیان کیا جا سکے کہ جب سیاسی جماعتوں کی سیاست کا محور مقتدرہ کی خوشنودی اور ان ہی کے بل بوتے پر الیکشن جیتنا رہے گا۔
انتخابات کا انعقاد اور نتائج اس سے مختلف کیوں کر ہوں؟ جو جماعت اقتدار سے باہر ہو اس کا مقصد آپ کی اور میری نہیں گیٹ نمبر چار کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے جسے نام سویلین بالادستی کا ہی دیا جاتا ہے۔
یہ بات درست کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ماضی میں کئی دہائیاں لمبی اور مثالی جدوجہد کی اور بڑی قربانیاں بھی دیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ پہلے ایک باپ پارٹی ہوتی تھی لیکن آج ہر سیاسی جماعت میں باپ کا باقاعدہ ونگ بن چکا ہے؟
کوئی سیاست دان ہارنے لگے تو مقتدرہ کی طرف دیکھتا ہے، جسے نشست مل جائے وہ خاموش ہو جاتا ہے اور جس سے چھن جائے وہ تب تک چلاتا رہتا ہے جب تک اگلی باری میں نشست چھن کر اسکی جھولی میں نہ آگرے
سیاست سے فوج اور عدلیہ کی مداخلت کا خاتمہ ہی ہمارے لیے آگے کا راستہ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر اس کھیل کے کچھ ایسے بنیادی اصول طے کریں، جسے کم از کم سیاسی جماعتیں پامال کرنے کا سوچیں بھی نہیں اور اسکے بعد وہ باقی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر کھیل کے اصول طے کریں۔
لیکن موجودہ حالات میں ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔ کابینہ سے اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی تک میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے ’وہاں‘ تعلقات کیسے ہیں۔
موجودہ حالات میں تو یہ ایک لاحاصل لیکن ایک ’مسٹ ڈُو‘ یا لازمی بحث ہے جسے سیاسی جماعتیں ہی آپس میں مل کر کسی منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔
آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد سے شوروغل اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ کبھی کبھار تو ٹی وی اور سوشل میڈیا سویچ آف کرنے میں ہی عافیت معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال اب جبکہ نظام نے آگے بڑھنا ہے پنجاب اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہو چکا ہے اور باقی دو اسمبلیوں میں بھی جلد ہو جائے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے بڑھا جائے۔
لیکن سوال اس وقت یہی ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے؟ جب ملک کی واحد لائف لائن ہی آئی ایم ایف ہو اور آپ اسے خط لکھ کر یہ پوچھ رہے ہو کہ یہ قرضہ واپس کون کرے گا تو اسے یقیناً آگے بڑھنا نہیں کہتے بلکہ انگریزی میں نان سٹارٹر کہتے ہیں۔
اس وقت آنے والی حکومت اور اپوزیشن کو کم از کم دو نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے ایک تو میثاق معیشت اور دوسرا ایسے انتخابی اصلاحات جس سے دھاندلی کا رستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوسکے۔
کل اگر ن لیگ چلا رہی تھی تو آج تحریک انصاف چیخ و پکار کر رہی ہے۔ کیوں اسکا مکمل اور ہمیشہ کے لیے سدباب نہیں کیا جا سکتا؟ اگر آپ یہی رٹ لگائے رکھیں کہ نہ تو الف کے ساتھ بیٹھنا ہے نہ ب کے ساتھ تو پھر آج آپ سڑکوں پر ہیں چند سال بعد وہ سڑکوں پر ہوں گے، اور بیچارہ پاکستان اور اس کی عوام اسی طرح پستے رہیں گے۔
پھر یہی بات بار بار دہرائی جائے گی کہ سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور سیاست کا محور یہی ہے کہ کیسے دوسرے کے خلاف اپنا کندھا دے کر کرسی پر لپک پر بیٹھا جائے۔ پھر اس کرسی سے چمٹنے رہنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور مخالفین کو اتنا دبایا جائے کہ وہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں۔
افسوس کے ہر چار پانچ سال بعد یہی کھیل اسی رفتار، اسی ترتیب اور اسی لائن و لنتھ کے ساتھ منعقد ہوتا رہتا ہے اور کوئی چیز بدلتی ہے تو وہ اس پورے تھیٹر میں سیاسی جماعتوں کا رول یا کردار ہے۔
سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ کر اس رول پلے کو مکافات عمل کا ٹائٹل عطا کرتی ہیں لیکن میوزیکل چئیر سے اترنے کے بعد یعنی اپوزیشن میں یہ سولین بالادستی کی جدوجہد قرار پاتی ہے۔کالم کے آخری حصے میں حالات حاضرہ کی طرف لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آٹھ فروری کے الیکشن میں نون لیگ اور تحریک انصاف نے کچھ کھویا تو کچھ پایا۔ اسی طرح جے یو آئی، اے این پی، جی ڈی اے اور پشتون اور بلوچ قوم پرستوں نے صرف کھویا۔ لیکن اگر کسی ایک سیاسی جماعت نے پایا تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جس کی انتخابی کمپین سے لے کر کامیاب پوسٹ الیکشن حکمت عملی کا کریڈٹ بلاول بھٹو کو دینا پڑے گا۔
اگلے ماہ کے اختتام تک زرداری صاحب صدر پاکستان ہوں گے، جب کہ چیئرمین سینیٹ، وزیراعلی سندھ و بلوچستان، گورنر پنجاب و پختونخوا جیالے ہوں گے اور مرکز میں پیپلز پارٹی کے بل بوتے پر قائم ن لیگ کی ایک کمزور اتحادی حکومت، جسے تاریخ کی ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔
باالفاظ دیگر قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے تیسرے نمبر کی پارٹی ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی تقریباً پورے ملک پر نہ صرف حکمرانی کرے گی بلکہ صدر اور چیئرمین سینیٹ کا عہدے حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کو مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں نون لیگ پر برتری حاصل ہو گی۔
البتہ پنجاب میں ن لیگ قدرے مستحکم حکومت کے قیام کے بعد کچھ سکھ کا سانس لے گی جہاں ملک کی پہلی خاتون وزیر اعلی مریم نواز کی کارکردگی کا کڑا امتحان ہو گا۔
یہ بات درست ہے کہ مریم نواز نے پارٹی کے اندر اپنے انکلز کی جانب سے پیدا کیے گئے جارحانہ ماحول اور نہ نظر آنے والی مخالفت کے باوجود خود کو کامیابی سے نوازشریف کا جانشین ثابت کیا۔ ان پر تواتر سے یہ اعتراض بھی کیا جاتا رہا بلکہ ابھی تک تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ایک سابق وزیر اعظم اور پارٹی قائد کی بیٹی ہیں اور انہیں ایک شہزادی کی طرح تخت پر بٹھا دیا گیا۔
لیکن ہمارے معاشرے میں ہر شعبے میں خاتون کو اپنا لوہا منوانے کے لیے ہم مردوں سے زیادہ خود کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔ مریم نواز کے سیاسی سفر کی اندر کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں (اس پر تفصیلی کالم پھر کبھی)، لیکن ان کا اصل چیلنج ن لیگ کے گھر پنجاب میں پارٹی کی ساکھ بحال کر کے اسے دوبارہ جی ٹی روڈ کی مقبول ترین پارٹی بنانا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔