دنیا میں خواتین سیاست دانوں کو 2024 میں بھی فضول باتوں کا سامنا

یہ 2024 ہے - کیا ہمیں آخرکار اس بات پر توجہ دینا بند نہیں کرنا چاہیے کہ خواتین کیسی نظر آتی ہیں اور سننا شروع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اصل میں کیا کہہ رہی ہیں؟

جارجی پرسیل (بائیں) اور یوکو کامیکاوا دونوں ہی حال ہی میں صنفی تنازعات کے مرکزی کردار رہی ہیں (جارجی انسٹاگرام/یوکو وینم پولیٹکل لیڈرز آرگنائزیشن)

اس ہفتے دنیا بھر سے دو سرخیاں دیکھنے کے بعد آپ کو یہ سوچنے میں غلطی ہو سکتی ہے کہ آپ نے ٹارڈیس (ایک ٹائم مشین اور خلائی جہاز کا ایک خیالی ہائبرڈ جو برطانوی سائنس فکشن ٹیلی ویژن سیریز ڈاکٹر ہو میں ظاہر ہوتا ہے) میں قدم رکھا ہے اور یہ آپ کو 20 سال واپس لے گیا ہے۔

ایک میں جاپان کی وزیر خارجہ کو ملک کے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ وہ ’خوبصورت نہیں‘ (انہوں نے کئی بار ان کا نام بھی غلط لیا اور عمر کے حوالے سے شرمندہ بھی کیا)۔ ایک اور خبر میں ایک نیوز چینل نے ایک خاتون آسٹریلوی رکن پارلیمنٹ کی تصویر چلائی جسے فوٹوشاپ کیا گیا تھا تاکہ ان کی چھاتی بڑی اور لباس مختصر دکھائی دے۔

یہ دونوں اس بات کی خوفناک مثالیں ہیں کہ جس طرح ہمارے سیاسی نظام میں جنس پرستی اب بھی سرایت کر چکی ہے، یہاں تک کہ نام نہاد ’ترقی یافتہ‘ ممالک میں بھی – لیکن دوسری کہانی نے مجھے جسمانی طور پر ہلا کر رکھ دیا۔ سال 2024 میں ہم اب بھی سیاست میں خواتین کو اس طرح کے زوال کا شکار کیسے دیکھ رہے ہیں؟ اور نیوز بلیٹن کے لیے کسی رکن پارلیمنٹ کی چھاتیوں کو بڑھانے کے پیچھے ممکنہ طور پر کیا سوچ ہوسکتی ہے؟

وکٹوریہ کے ایوان بالا کی رکن پارلیمنٹ جارجی پرسیل نے سوشل میڈیا پر نائن نیوز کے ساتھ اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ’میں نے کل (حکومت کی جانب سے بطخ کے شکار پر مجوزہ پابندی کو مسترد کرنے کے بعد) بہت کچھ برداشت کیا۔ لیکن میرے جسم اور لباس کو ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کے ذریعے فوٹوشاپ کرنا میرے بنگو کارڈ پر نہیں تھا۔ سینے کو بڑھا کے دکھانا اور زیادہ جسم دکھانے والے ملبوسات کو نوٹ کریں۔

’ایک مرد رکن پارلیمنٹ کے ساتھ ایسا ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیا سمجھے؟‘

اس کے بعد انہوں نے اصل تصویر اور نائن نیوز کے ذریعے استعمال ہونے والے جعلی ورژن کو ایک ساتھ پوسٹ کیا۔ پہلے میں پرسیل نے سفید لباس پہنا ہوا ہے کبکہ دوسری تصویر میں لباس کو تبدیل کیا گیا ہے تاکہ درمیان کی ایک پٹی دکھائی دے – اس کے علاوہ ان کی چھاتی ناقابل یقین طور پر بڑی دکھائی دیتی ہے۔

نیوز نیٹ ورک نے اس کی ذمہ داری فوٹوشاپ پر ڈالنے کی کوشش کی، پروگرام کے نیوز ڈائریکٹر، ہیو نائلون نے کہا: ’ہمارے گرافکس ڈپارٹمنٹ نے بطخ کے شکار پر ہماری خبر میں استعمال کرنے کے لیے جارجی کی ایک آن لائن تصویر حاصل کی۔ جیسا کہ عام رواج ہے تصویر کو ہماری خصوصیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ری سائز کیا گیا۔

اس سے وکٹوریہ بھر کی نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ آپ اپنے شعبے میں ترقی پانے کے باوجود آپ کا جسم ہمیشہ لوگوں کی گرفت میں رہتا ہے (جیورجی پرسیل)

 

’اس عمل کے دوران فوٹوشاپ کے ذریعے آٹومیشن نے ایک ایسی تصویر بنائی جو اصل سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ یہ ہمارے اعلیٰ ادارتی معیار پر پورا نہیں اترتا اور اس کے لیے ہم محترمہ پرسیل سے غیرمشروط معافی مانگتے ہیں۔‘

لیکن فوٹوشاپ بنانے والی سافٹ ویئر کمپنی ایڈوب نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے کہ پروگرام نے یہ تبدیلیاں خود کی ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اس تصویر میں کسی بھی تبدیلی کے لیے انسانی مداخلت اور منظوری درکار ہوتی ہے۔‘

میں نائن نیوز کا زیادہ احترام کروں گی اگر وہ صرف اپنا ہاتھ اٹھائیں اور یہ کہیں کہ سیکس فروخت ہوتا ہے۔ پرسیل ایک جوان، پرکشش، گوری عورت ہے۔ اسے اتنا زیادہ ’ہاٹ‘ بنانے کا لالچ واضح طور پر اتنا مضبوط تھا کہ مزاحمت نہیں کی جا سکتی تھی۔

پرسیل نے ایک بیان میں کہا، ’میں یہ کہنے سے نہیں ڈرتی کہ کل میرا اب تک کا بدترین دن تھا۔‘

’بدقسمتی سے خواتین کے لیے فرق یہ ہے کہ انہیں مسلسل جنسیت اور آبجیکٹائزیشن سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جو تصاویر لیک کرنے، مسخ شدہ اور مصنوعی ذہانت سے پیدا کی جاتی ہیں۔

’یہ واضح ہے کہ یہ کچھ ایسا نہیں ہے جو میرے مرد ساتھیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ اس پر ہنسنے کی کوشش کی جا رہی تھی – ’فی الحال، کم از کم میں جانتی ہوں کہ میں ایک بوب جاب اور بنی ہوئے ایبس کے ساتھ کیسی نظر آتی ہوں‘ – یہ بنیادی غصہ واضح طور پر ابھر رہا تھا کہ عورتوں کو اب بھی اس طرح کی بےعزتی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے وکٹوریہ کی نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ آپ کے شعبے میں سب سے اوپر بھی آپ کا جسم ہمیشہ پکڑ میں رہتا ہے۔‘

یہ صرف فوٹوشاپ شدہ تصاویر ہی نہیں ہیں جو مسئلہ ہیں۔ میں 2022 میں اگلے ٹوری لیڈر کے ممکنہ دوڑ میں شامل خواتین پر برطانوی براڈ شیٹ کی کوریج کو کبھی نہیں بھولوں گی، جس میں انہوں نے تیراکی کے لباس میں پینی مورڈانٹ کا شاٹ استعمال کرنے کا انتخاب کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کے تمام مرد ساتھی مکمل کپڑوں میں ملبوس تھے۔

سال 2024 میں ہم اب بھی سیاست میں خواتین کو اس طرح کے زوال کا شکار کیسے دیکھ رہے ہیں؟

70 سالہ جاپانی وزیر خارجہ یوکو کامیکاوا نے (ایمانداری سے، کیا یہ کبھی ختم ہوگا؟) جن کی ظاہری شکل کو ان کے ساتھی نے توہین آمیز قرار دیا تھا، ان تبصروں کو ایک طرف رکھ دیا۔ انہوں نے ٹارو آسو کے ریمارکس کے جواب میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میں جانتی ہوں کہ بہت سی مختلف آرا ہیں اور میں کسی بھی اور تمام آرا کی معترف ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ بہترین جواب اپنے سفارتی کام کو جاری رکھنا تھا۔ کیونکہ خواتین کو یہی کرنا سکھایا جاتا ہے: اسے نظر انداز کریں، اسے جانے دیں، اپنا سر جھکائے رکھیں اور کام جاری رکھیں۔ لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

فوٹوشاپ کے بارے میں تبصرے کہ آیا خواتین سیاست دان ’پرکشش‘ ہیں یا نہیں، بظاہر کافی حد تک بے ضرر لگ سکتے ہیں۔ لیکن وہ خواتین کی شدید بےعزتی کی نشاندہی کرتے ہیں جو اب بھی معاشرے کے تمام طبقوں میں موجود ہے۔

فرسودہ خیالات کے حقیقی دنیا پر اثرات ہوتے ہیں۔ آسو کی توہین 2018 میں اس اعلان کے بعد ہوئی تھی کہ ’جنسی ہراسانی کے جرم جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘

یہ 2024 ہے - کیا ہمیں آخرکار اس بات پر توجہ دینا بند نہیں کرنا چاہیے کہ خواتین کیسی نظر آتی ہیں اور سننا شروع نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اصل میں کیا کہہ رہی ہیں؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل