پاکستان میں عورتوں کی کتنی عزت ہے؟

توجہ طلب بات یہ بھی ہے آخر دنیا کو پاکستان سے ایسی کیا دشمنی ہے کہ عورتوں کی مثالی تکریم کے اس انتہائی سنجیدہ دعوے کے باوجود اسے خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرتی ہے؟

 کوئٹہ میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حقوق کے حصول کے لیے ایک مارچ (اے ایف پی فائل)

جس وقت ملک میں خواتین پر تشدد اور جنسی جرائم کے حوالے سے پے در پے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں نور مقدم کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اس سے  خواتین میں خوف و ہراس، عدم تحفظ اور بے چینی بڑھی ہوئی ہے۔

سول سوسائٹی انصاف کے لیے اور ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے ریاستی ناکامی پر سراپا احتجاج ہے۔ ایسے وقت میں وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو حال ہی میں  دیے گئے ایک انٹرویو میں بہت وثوق سے کہا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں عورت کو جتنی عزت دی جاتی ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

ملک کے سربراہ کے طور پر ان سنجیدہ معاملات پر وزیر اعظم کی کہی کسی بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے یقیناً مصدقہ معلومات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہوگا۔ حکومت کی مستند اعدادو شمار تک رسائی ہوتی ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نے یہ دعویٰ خواتین کی حیثیت اور تکریم پر سب اچھا ہے کی رپورٹ کہ بنیاد پر کیا ہے  یا وہ خود یہ سوچ رکھتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کو بہت عزت و احترام حاصل ہے؟ توجہ طلب بات یہ بھی ہے آخر دنیا کو پاکستان سے ایسی کیا دشمنی ہے کہ عورتوں کی مثالی تکریم کے اس انتہائی سنجیدہ دعوے کے باوجود اسے خواتین کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرتی ہے؟

اس سے قبل ماضی قریب میں دیے گئے انٹرویوز میں جنسی جرائم پر وزیر اعظم کے موقف پر شدید تنقید سامنے آئی۔ تنقید کرنے والوں کو حکومتی حلقوں نے ’دیسی لبرلز‘ قرار دیا اور وزیر اعظم کے موقف کو مڑوڑ تروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگا کر ہر سطح پر ناراضگی کا اظہار کیا جاتا رہا۔

وزرا اور مرد و خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے وزیر اعظم کے بیانات کے پیچھے چھپی دلیل اور منطق پر لمبی لمبی تاویلیں پیش کی گئیں۔ بعد ازاں ایک اور انٹرویو میں وزیر اعظم نے بہت واضح انداز میں بتا دیا کہ ریپ کا ذمہ دار صرف اور صرف ریپ کرنے والا ہے۔ لہذا وہ لوگ جو عمران خان پر شک کر رہے تھے کہ وہ ’وکٹم شیمنگ‘ کر رہے ہیں اب ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہا کہ وہ ان پر تنقید کریں اور انہیں رجعت پسند قرار دیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر وزیر اعظم نے کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں عورت کو بہت عزت دی جاتی ہے۔ کیا انہوں نے کبھی پاکستان کے بازاروں گلیوں میں ایک اکیلی عورت کو چلتے دیکھا ہے؟ سڑک کنارے کوئی لڑکی اکیلی کھڑی ہو جائے تو جس طرح اسے ہراساں کیا جاتا ہے کہا کبھی وزیر اعظم نے یہ منظر دیکھا ہے؟ گھروں کے اندر تشدد کی چکی میں پس پس کر جینے والی زندہ لاشوں سے کبھی انہوں نے براہ راست بات کی ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعظم نے شاید دیکھا ہو کہ دنیا کے سامنے عورت کو کرسی پیش کی جاتی ہے۔ قطار میں کھڑے مرد عورت کے لیے آگے جگہ بھی بنا دیتے ہیں۔ اسے محترمہ کہہ کر بھی مخاطب کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا وزیر اعظم نے مردوں کی بیٹھک میں عورت کی تضحیک پر مبنی مکالمے کبھی نہیں سنے؟ کیا انہوں نے گھریلو تشدد کے اعدادوشمار کبھی نہیں دیکھے؟ وزیر اعظم ان سب عورتوں کے بھی وزیر اعظم ہیں جن کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا اور ان عورتوں کے بھی جو خود کو اس ملک میں محفوظ تصور نہیں کرتیں۔

وزیر اعظم کوئی واحد شخص نہیں جنہوں نے پاکستان میں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور عزت کو مثالی قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر،گھروں میں، میڈیا مباحثوں میں ہر جگہ یہ دعویٰ کرنے والے موجود ہیں جن کا خیال ہے کہ مغرب میں پاکستان سے زیادہ جنسی جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں لیکن وہاں کوئی اس بات کا بتنگڑ نہیں بناتا۔ وہاں پر بھی عورتوں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے لیکن وہاں کوئی ملک کی بدنامی کے لیے فلم بنا کر سستی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگتا۔

یہ ہی نہیں کچھ لوگ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ مغربی ممالک میں جدت پسندی کے نام پر عورت کا استحصال کیا جا رہا ہے جبکہ یہاں گھر جیسی خوبصورت جنت میں عورت کو ملکہ بنا کر جس طرح تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اس پر عورتیں سجدہ شکر بجا لائیں۔ یہ عورتیں ناشکری ہیں اور مغربی ایجنڈے کی یرغمال ہیں جو ہمارے خاندانی نظام اور سماج کی اقدار کو تاراج کرنے کے لیے ’عورت مارچ‘ جیسے گھناؤنے منصوبے بنا رہا ہے۔

دنیا کی پاکستان کے ساتھ ایسی کیا دشمنی ہے کہ پاکستان کو خواتین کے لیے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اعشاریوں میں دنیا کے 156 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو آٹھ ملکوں میں پاکستان کا درجہ ساتواں ہے۔ صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے جہاں چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا راج ہے۔

کچھ عرصہ قبل تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن نے دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ملکوں میں پاکستان کو چھٹا ملک قرار دیا۔

2019 میں اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ(UNPF ) نے پنجاب کے آخری شماریات اور حیثیت نسواں پر صوبائی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا جس کے مطابق پنجاب کی 15 سے 64 برس عمر کی ہر تین خواتین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔

ان سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان کی 90 فیصد عورتیں اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔

2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی اپنی رکن صوبائی اسمبلی زہرہ نقوی نے پنجاب میں 2021 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی 80 سے زائد خواتین کے لیے تحریک التوا جمع کرائی۔ یہ سب اعشاریے اور اعدادو شمار سرکاری دعووں کے بالکل برعکس ہیں۔

پھر جبر اور سماجی دباؤ میں ناکام شادیوں میں پھنسی رہنے والی ذہنی تشدد کا شکار خواتین کے حوالے سے کوئی اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں۔ طلاق کے بعد سماجی رویوں کا شکار ذہنی کرب کا شکار عورتوں کے بارے میں بھی کوئی اعدادو شمار نہیں۔ پڑھائی کی اجازت نہ ملنے پر خوابوں کو قربان کرنے والی خواتین کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔

ملازمت کرنے کی اجازت نہ ملنے پر گھر میں مالی بدحالی کا بوجھ تشدد کی شکل میں ڈھونے والی عورتوں کی زندگی کا کوئی نقشہ اعدادو شمار کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق اگر میڈیکل کالجز میں خواتین طلبہ کی شرح دیکھی جائے تو 80 سے 85 فیصد ہے لیکن پریکٹس کرنے والی خواتین ڈاکٹر 50 فیصد سے بھی کم ہیں کیونکہ ان کو شادی کے بعد گھر ہستی سنبھالنے کے لیے اپنے شوق اور ارداے کو خیر آباد کہنا پڑا۔

ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں ایک درجن کو بھی جنسی جرائم کی بنیاد پر سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔

عورت جب تک معاشرے میں تحفظ محسوس نہیں کرے گی جب تک اسے برابر مواقعے، برابر انصاف اور برابر حقوق نہیں ملیں گے اس کی عزت نہیں ہوگی۔

یہ عزت اسے ریاست دلوا سکتی ہے اور اس وقت ریاست کی باگ ڈور آپ کے پاس ہے خان صاحب۔۔۔!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ