سندھ ہائی کورٹ نے جمعے کو ستمبر 2019 سے توہین اسلام کے الزام میں قید گھوٹکی کے پروفیسر کو لگائے گئے الزامات میں بے قصور قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ سکھر نے توہین اسلام کیس میں چار سماعتوں کے بعد پروفیسر کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے اس کیس پر 11 دسمبر، 15 جنوری، 22 جنوری کو سماعتیں کیں اور یکم مارچ کو ہونے والے شنوائی کے دوران پروفیسر کی رہائی کا فیصلہ سنایا۔
سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ٹرائل کورٹ کی جانب سے پروفیسر کو عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔
18 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں سینیئر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے توہین مذہب کے کیس میں گواہوں کے بیانات اور ثبوتوں کی بنیاد پر لکھا: ’یہ قانون کا بنیادی اصول ہے کہ جب استغاثہ ملزم کے خلاف شک سے بالاتر مقدمہ پیش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور ایسے حقائق اور حالات ہوں جس سے ملزم سے متعلق کوئی اور نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہو تو اس کا فائدہ ملزم ہی کو ملنا چاہیے۔
'اس سنہری اصول کی پیروی کرتے ہوئے بلاشبہ مندرجہ بالا بحث کے بعد اپیل کندہ کی بے گناہی کے نتیجے میں شک کا فائدہ انہیں ملتا ہے اور اپیل کندہ کو اس الزام سے بری کیا جاتا ہے۔‘
فیصلے کے ساتھ عدالت نے کیس کو خارج کر دیا۔
الزام کیا تھا؟
کالج کے پروفیسر کو ستمبر 2019 میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کے کالج کے گیارہویں جماعت کے طالب علم نے الزام عائد کیا کہ ان کے کالج کے پروفیسر کلاس میں توہین اسلام کے مرتکب ہوئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اطلاع پر شہر بھر میں کشیدگی پھیل گئی اور ہزاروں افراد نے دھرنا دے کر سندھ اور پنجاب کو ملانے والی قومی شاہراہ بلاک کر دی۔
ان کا مطالبہ تھا کہ ’توہین اسلام کے مرتکب‘ ہندو پروفیسر کو گرفتار کیا جائے۔ پولیس کی یقین دہانی پر رات بھر جاری رہنے والا دھرنا ختم ہو گیا۔
بعد میں طالب علم کے والد کی درخواست پر گھوٹکی کے اے سیکشن تھانے کی پولیس نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کر کے ہندو پروفیسر کو گرفتار کر لیا۔
سینکڑوں مشتعل افراد نے شہر پر دھاوا بول دیا اور حملہ کرکے سکول میں توڑ پھوڑ کے بعد ایک ہندو مندر پر حملہ کرکے وہاں بھی توڑ پھوڑ کی۔
کیس کی شنوائی کے بعد سکھر کی عدالت نے نو فروری 2022 کو پروفیسر کو عمر قید (25 برس قید) اور جرمانے کی سزا سُنائی تھی۔
عدالت کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ سکھر نے جمعے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پروفیسر کو رہا کرنے کا حکم دیا۔
پروفیسر کی سزا کے خلاف سوشل میڈیا پر کئی ماہ تک سوشل میڈیا پر مہم بھی چلتی رہی جن میں سوشل میڈیا صارفین ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔