پاکستان میں ماہی گیروں کی نمائندہ تنظیم فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کا کہنا ہے کہ کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری سے پیر کو الاسد نامی کشتی ڈوبنے کے بعد 45 میں سے 31 ماہی گیروں کو بچا لیا گیا ہے جبکہ 13 کی تلاش کا کام جاری ہے۔
ابراہیم حیدری سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کو لے کر ایک کشتی مرغی کے فیڈ کے لیے استعمال ہونے والی مچھلی کے شکار پر روانہ ہوئی تھی۔
جب کشتی حجامڑو کریک تک ہی پہنچی تھی کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب کشتی الٹنے کا افسوس ناک حادثہ پیش آیا تھا۔
فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کے سکیورٹی انچارچ ناصر بونیری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ اب تک 31 ماہی گیروں کو بچا لیا گیا ہے جبکہ 14 ماہی گیروں کی تلاش جاری ہے۔
ناصر بونیری کے مطابق: ’کشتی الٹنے کا حادثہ قدرتی ہے کیوں کہ شکار کی جانے والی مچھلی کشتی کے پچھلے حصے میں جا کر جمع ہوئی جس سے کشتی کا توازن برقرار نہ رہ سکا کچھ ماہی گیروں نے خوف سے سمندر میں چھلانگ لگا دی جبکہ کچھ کشتی الٹنے سے ڈوب گئے۔‘
ماہی گیری ایک سخت محنت طلب اور جان جوکھوں میں ڈالنے والا پیشہ ہے: کمال شاہ
ماہی گیری کا پیشہ آج بھی بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی سے لے کر بلوچستان تک کے مضافاتی علاقے تک ساحلی پٹی پر ماہی گیروں کی اکثریت آباد ہے۔
کراچی کے ماہی گیر سمندر کی موجوں میں ایک دو دن سے لیکر اکثر اوقات مہینہ مہینہ بھر بھی گزارتے ہیں۔ یہ مچھیرے اپنی روزی کمانے کے لیے کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر میں جاتے ہیں جہاں وہ جال کے ذریعے مچھلی پکڑ کر ساحل پر لاتے ہیں۔
ساحلی علاقوں میں جہاں مچھلی کا کاروبار ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماہی گیر کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ماہی گیری ایک سخت محنت طلب اور جان جوکھوں میں ڈالنے والا پیشہ ہے۔ ماہی گیر جب سمندر میں جاتے ہیں تو انہیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کے ترجمان مطیع الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ کھلے سمندر میں کشتی کا سفر پر خطر ضرور ہے لیکن اس کے لیے احتیاطیں بھی موجود ہیں جس کیں سب بنیادی احتیاطی تدابیر لائف جیکٹس کا استعمال ہے جسے ماہی گیر طبقہ نظر انداز کر دیتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ جبکہ لائف جیکٹس کے ساتھ سمندر میں تین روز بھی بحفاظت انداز میں گزر سکتے ہیں بالفرض موت بھی ہوئی تو وہ خوراک کی کمی کی وجہ سے ہو گی اور بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کشتی میں تعداد سے زیادہ ماہی گیر سوار ہو جاتے ہیں جو حادثے کا باعث بنتی ہے۔
’کبھی موسم خراب ہونے کے بوجود ماہی گیر اپنی جان پر کھیل کر کھلے سمندر میں پہنچ جاتے ہیں جس کے لیے پہلے سے ہی احتیاطی الرٹ جاری کیا ہوا ہوتا ہے۔‘
بقول میری ٹائم سیکیورٹی ترجمان: ’ماہی گیروں کو ڈرل بھی کرواتے رہے ہیں اور کسی بھی ہنگامی صورت میں رابطے کے لیے وائرلیس بھی فراہم کیا جاتا ہے جس کے بعد میری ٹائم سکیورٹی ریسکیو کے عمل میں تیزی دکھاتی ہے۔‘
ترجمان کوسٹل میڈیا سینٹر ابراہیم حیدری کمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد میں بلوچی اور سندھی ماہی گیر ہوتے ہیں جو نسل در نسل ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ ماہی گیروں میں بڑی تعداد بنگالیوں پر مشتمل ہے۔
’یہ ماہی گیر سمندر سے لوٹنا جانتے ہیں اور ذہنی طور سے انہیں تمام خطروں کا اندازہ ہوتا ہے کئی مرتبہ گہرے سمندر میں حادثات ہوئے ہیں لیکن ماہی گیر اپنی مدد آپ کے تحت بچ جاتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے دوسرے کشی والے بھی ایک دوسرے کی مدد کر دیتے ہیں۔‘
دوسری جانب چیف میٹرولوجسٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’الاسد نامی کشتی حادثے کو وجہ موسم کی خرابی نہیں ہے موسم کی خرابی ہی صورت کی محکمہ ماہی گیروں کے لیے ایک مخصوص ہدایت جاری کرتا ہے جو تین روز قبل جاری کر دی جاتی ہے تاکہ کسی قسم کا نا خوشگوار حادثہ سے بچا جا سکے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔