پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں کشمیری باقر خانی بنائی یا کھائی نہ جاتی ہو۔
میدے، انڈے، تل، خشخاش، گھی اور تیل کے امتزاج سے تیار شدہ خستہ باقر خانی کو مظفر آباد کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔
لوگ اس کشمیری باقرخانی کو اندرون اور بیرون ممالک اپنے عزیز اقارب کے لیے بطور تحفہ بھیجتے ہیں جبکہ اپنی شادی بیاہ کی تقریبات سمیت رمضان المبارک میں سحر و افطار میں بھی اسے کھانے کا اہم ترین جزو مانا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظفرآباد کے ایک مقامی ہوٹل پر محمد سلیم گذشتہ 27 سال سے باقر خانی بنا رہے ہیں۔ انہوں نے باقر خانی کی تیاری سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔
سلیم بتاتے ہیں کہ وہ صبح سب سے پہلے میدے کو تقریباً 30 سے 45 منٹ تک گوندھتے ہیں، جس کے بعد اس کے بڑے بڑے پیڑے بنا لیے جاتے ہیں۔ میدے کو گوندھنے کے بعد دو گھنٹے تک اسے نرم ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بقول سلیم: ’اگر گوندھے ہوئے میدے کو کم از کم دو گھنٹوں سے پہلے بیلا جائے تو اس سے بنائی جانے والی باقر خانی ٹوٹ جاتی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’گھی ڈالنے کے بعد اس بڑی سی روٹی کو لپیٹ کر ایک رول کی شکل میں لایا جاتا ہے، جس کے بعد اسے توڑ کر چھوٹے پیڑے بنائے جاتے ہیں اور ان پیڑوں کو باقر خانی کے سائز کے مطابق ہاتھوں سے دبا کر گول شکل میں لایا جاتا ہے۔ پھر اس پر پھینٹا ہوا انڈہ لگایا جاتا ہے اور سب سے آخر میں اس پر تل اور خشخاش چھڑک دی جاتی ہے۔
’آخری مرحلے میں اسے ہلکی آنچ پر گرم کیے گئے تندور پر پکنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ دھیمی آنچ پر تین سے پانچ منٹ پکنے کے بعد باقر خانی کھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔‘
کشمیری پکوانوں میں باقر خانی وہ واحد پکوان ہے جسے ہر سالن، دال، کشمیری گشتابہ، لوبیا، بالائی، چائے اور حتیٰ کہ خشک بھی تناول کیا جاتا ہے۔
رمضان میں یہاں رہنے والے اسے سحر اور افطار دونوں میں شوق سے استعمال کرتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔