غزہ میں فوری فائربندی کی امریکی قرارداد پر سلامتی کونسل میں ووٹنگ آج متوقع

امکان ہے کہ قرارداد کی منظوری کے بعد واشنگٹن کے اتحادی اسرائیل پر غزہ میں شہریوں کے تحفظ اور مزید انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔

22 دسمبر 2023 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کا منظر (اے ایف پی)

غزہ میں فوری فائر بندی اور اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی امریکہ کی قرار داد پر آج (جمعے کو) ووٹنگ کا امکان ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق قرارداد کی منظوری سے واشنگٹن کے اتحادی اسرائیل پر غزہ میں شہریوں کے تحفظ اور مزید انسانی امداد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔

اقوام متحدہ میں امریکی مشن کے ترجمان نیٹ ایونز نے کہا کہ یہ قرارداد 15 رکنی سلامتی کونسل میں ’مشاورت کے کئی ادوار‘ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

یہ قرارداد اسرائیل کے بارے میں واشنگٹن کے موقف میں مزید سختی کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس سے پہلے غزہ میں پانچ ماہ تک جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے لیے امریکہ لفظ ’جنگ بندی‘ تک کی مخالفت کرتا رہا ہے اور ایسی کئی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے، جن میں فوری فائر بندی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

اب امریکہ کی مجوزہ قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ تقریباً چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی ’فوری اور پائیدار فائربندی‘ شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے اور اس سے انسانی امداد کی فراہمی بھی ممکن ہو گی۔

مسودے کے متن میں فائر بندی پر امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کی حمایت کی گئی ہے اور ’پائیدار امن‘ کے حصول میں کوششوں کو تیز کرنے کے لیے فائر بندی کی مدت کو استعمال کرنے کی حمایت پر زور دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس قرارداد پر فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

سلامتی کونسل میں منظور ہونے کے لیے قرارداد کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس یا چین کی طرف سے اس پر ویٹو کا امکان نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جمعرات کو کہا کہ انہیں یقین ہے کہ قطر میں ہونے والی بات چیت، جو چھ ہفتے کی فائر بندی اور 40 اسرائیلی قیدیوں اور جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی پر مرکوز ہے، کے لیے کسی معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ حماس کا کہنا ہے کہ وہ قیدیوں کو صرف اس معاہدے کے حصے کے طور پر رہا کرے گا جس سے جارحیت کا مستقل خاتمہ ہو جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی جارحیت میں صرف ایک عارضی توقف پر بات کرے گا۔

امریکہ چاہتا ہے کہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی سے منسلک فائر بندی کے لیے سلامتی کونسل کی حمایت حاصل ہو۔

غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں اب تک تقریباً 32,000 فلسطینی جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

اس قرار داد کا مقصد غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ کرنا بھی ہے، جہاں شدید قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے دوران واشنگٹن نے تین قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا جن میں سے دو میں فوری فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ابھی حال ہی میں امریکہ نے یہ کہہ کر اپنے ویٹو کا جواز پیش کیا کہ کونسل کی ایسی کارروائی فائر بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

امریکہ روایتی طور پر اقوام متحدہ میں اسرائیل کو سفارتی ڈھال فراہم کرتا ہے، لیکن اس نے سلامتی کونسل میں امداد میں اضافے اور لڑائی میں وقفے کا مطالبہ کرنے والی دو قراردادوں پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا