امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے غزہ میں ناکافی امداد کی فراہمی پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حماس کے ساتھ معاہدے میں مجوزہ چھ ہفتوں کی فائر بندی قبول کی جائے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے امریکی ریاست الباما میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ ’غزہ میں جتنے مصائب ہیں ان کے پیش نظر کم از کم اگلے چھ ہفتوں تک فائر بندی ہونی چاہیے جو اس وقت زیر غور ہے۔‘
What we are seeing every day in Gaza is devastating.
— Vice President Kamala Harris (@VP) March 4, 2024
As we’ve said, there is a deal on the table that includes a 6-week ceasefire, which would get hostages out and aid in.
Hamas needs to accept it. pic.twitter.com/mhJ2ZacPDc
اسرائیل کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے کسی عہدیدار کی جانب سے ان کا یہ بیان اب تک کا سب سے سخت بیان ہے کیوں کہ اسرائیل کی حمایت اور غزہ میں شہریوں کی اموات میں اضافے کی وجہ سے صدر جو بائیڈن پر شدید دباؤ ہے۔
ایک سینیئر امریکی عہدیدار نے ہفتے کو کہا تھا کہ اسرائیل نے وہ معاہدہ کافی حد تک قبول کر لیا ہے، جس کے تحت اگر حماس اپنے پاس موجود قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامند ہو جائے تو چھ ہفتوں کے لیے فائر بندی ہو جائے گی۔
ہیرس نے حماس سے اس معاہدے کو قبول کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے’قیدی آزاد ہوں گے اور بڑی مقدار میں امداد آئے گی۔
حماس کا دعوی ہے کہ وہ سیز فائر چاہتے ہیں۔ تو ٹھیک ہے، ایک معاہدہ زیرغور ہے۔ اور جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں، حماس کو اس معاہدے پراتفاق کر لینا چاہیے۔‘
سات اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے کیے گئے حملے میں سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 1160 افراد مارے گئے تھے اور تقریباً 250 کو قیدی بنا کرغزہ لے جایا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ میں 130 قیدی موجود ہیں جن میں سے 31 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مارے گئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت کے میں 30 ہزار 410 افراد جان سے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہیرس نے غیر روایتی سخت زبان میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں امداد بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ ’اسرائیلی حکومت کو امداد کے بہاؤ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کے لیے بلا عذر مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو ’نئی سرحدی گزرگاہیں کھولنی چاہییں‘ اور ’امداد کی ترسیل پر کوئی بھی غیر ضروری پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہییں۔‘
کملا ہیرس پیر کو واشنگٹن میں اسرائیل کی جنگی کابینہ کے مرکزی رکن بینی گینٹز سے ملاقات کریں گی۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے اتوار کو بتایا ہے کہ ’نائب صدر کی ملاقات غزہ میں جارحیت اور اس کے بعد کی منصوبہ بندی کے متعلق اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کی ہماری مسلسل کوششوں کا حصہ ہے۔‘
امریکی حکام کے مطابق سابق اسرائیلی فوجی سربراہ، جو نتن یاہو کے دیرینہ حریف ہیں، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے بھی ملاقات کریں گے۔
ہیرس نے جمعرات کو امدادی ٹرکوں کے قافلے کے گرد افراتفری میں ہوئی اموات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’بہت سے فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شمالی غزہ میں تقریبا کئی ہفتوں تک کوئی امداد نہ پہنچنے کے بعد لوگ اپنے اہل خانہ کے لیے کھانا لینے کی کوشش کر رہے ہیں... اس ہولناک سانحے کے متاثرین کے لیے ہم شکستہ دل ہیں۔
’حماس کی جانب سے اسرائیل کے عوام کو جو خطرہ ہے اسے ختم کیا جانا چاہیے۔‘
ہیرس نے اپنا خطاب ایڈمنڈ پیٹس برج پر کیا، جہاں سات مارچ، 1965 کو سینکڑوں پرامن کارکنوں کے مارچ پر پولیس نے تشدد کیا تھا۔
اس واقعہ نے، جس کو ’خونی اتوار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سیاہ فاموں کے حقوق کی حمایت کو مزید فروغ دیا اور چند ماہ بعد ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی منظوری میں مدد کی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔