ٹرمپ فراڈ کیس میں 464 ملین ڈالرز کے بانڈ حاصل نہ کر سکے تو کیا ہوگا؟

ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیلوں کے مطابق اب ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے پیر، 25 مارچ کو اپنے خلاف فیصلے کے نفاذ کی ریاست کی آخری تاریخ سے پہلے رقم اکٹھی کرنا ’عملی طور پر ناممکن‘ ہے۔

صدر جو بائیڈن کے مد مقابل رپبلکن پارٹی کے امیدوار کو مالی بحران اور قانونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں 88 مجرمانہ الزامات بھی شامل ہیں، جن میں کم از کم ایک فوجداری مقدمہ اور فیصلہ انتخابات کے دن سے پہلے متوقع ہے۔

18 مارچ کو عدالت میں جمع کرائی گئی ایک درخواست میں ڈونلڈ ٹرمپ کے وکلا نے کہا کہ اس سال کے اوائل میں نیو یارک میں سول فراڈ کے مقدمے میں شکست کے بعد انہوں نے کم از کم 30 کمپنیوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو 46 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد کے بانڈز پوسٹ کر سکتی ہیں۔

ان کے وکیلوں کے مطابق، لیکن ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکی، اور اب ان کے لیے پیر، 25 مارچ کو اپنے خلاف فیصلے کے نفاذ کی ریاست کی آخری تاریخ سے پہلے رقم اکٹھی کرنا ’عملی طور پر ناممکن‘ ہے۔

ان غیر معمولی حالات سے اس بات کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں کہ نومبر میں جب ووٹرز ووٹ ڈالیں گے تو جی او پی کا صدارتی امیدوار دسیوں ملین ڈالر کا مجرم ہو سکتا ہے، جو اس کے پاس نہیں ہیں۔

مسٹر ٹرمپ دیوالیہ پن کی درخواست دے کر دھوکہ دہی سے حاصل کردہ قرضوں سے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔

ٹرمپ کی فیصلے کا نفاذ کو روکنے کی دلیل

گذشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت کچھ ریلیف ملا تھا جب ایک جج نے فیصلے کے ایک حصے کو روکنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کی وجہ سے وہ قرض لینے کے قابل نہیں ہو سکتے تھے۔

ان کے وکلا نے اس ریلیف کی درخواست کی تاکہ بانڈ حاصل کر سکیں۔

اب، ان کی قانونی ٹیم ایک ریاستی اپیلیٹ کورٹ سے کہہ رہی ہے کہ وہ فیصلے کے مالی حصے کے نفاذ کو روک دے، حتیٰ کہ وہ اس بانڈ کے متحمل نہیں ہوسکتے جو اس پورے فیصلے کی اپیل کے دوران وصولی کو عارضی طور پر روک دے گا۔

ان کے وکلا نے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے زبانی دلائل کی درخواست کی ہے۔

ٹرمپ پیسے ادھار لینے کی کوشش جاری رکھ سکتے ہیں

ضمانتی بانڈ اپیل کے دوران نفاذ کو روکنے کے لیے ایک قسم کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر کام کرتا ہے۔

تاہم، ان کی قانونی ٹیم کے مطابق، انہوں نے جن کمپنیوں سے رابطہ کیا، وہ ان کی سٹار جائیدادوں کو ضمانت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے ’تیار‘ نہیں ہیں کیونکہ ایک جج نے انہیں دھوکہ دہی سے اپنے رئیل اسٹیٹ پورٹ فولیو کی قیمت بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

ان کمپنیوں کے پاس ’اتنے بڑے بانڈ کے لیے مالی طاقت نہیں ہے‘ یا ’اتنے بڑے بانڈ سے جڑے خطرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

یہ کمپنیاں ’صرف نقد یا نقد کے مساوی لیں گی‘، جیسا کہ مارکیٹ کے قابل سکیورٹیز، اور عام طور پر ’فیصلے کی رقم کے تقریباً 120 فیصد کی ضمانت کی ضرورت ہوگی‘،  جو اس کیس میں تقریباً 56 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

ٹرمپ کے وکیل کے مطابق اس کے بعد ضمانتی بانڈز کا پریمیم تقریباً دو فیصد سالانہ وصول کریں گے جس کی پیشگی قیمت ایک کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہوگی۔

اس رقم کی وصولی ممکن نہیں ہوگی، یہاں تک کہ اس صورت میں کہ مسٹر ٹرمپ اپنی اپیل جیت جائیں۔

لیٹیٹیا جیمز ان اثاثوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتی ہیں

گذشہ ماہ، نیو یارک کی اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمز نے کہا تھا کہ ان کا دفتر ٹرمپ کے اثاثوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہے تاکہ اس قرض کی وصولی شروع کی جا سکے جو ایک جج نے ریاست کی جانب سے سابق صدر کے ذمہ واجب الادا قرار دیا ہے، اس نام نہاد ’ناجائز حاصل کردہ منافع‘ میں سے جو انہوں نے بینکوں اور بیمہ کنندگان سے سازگار شرائط حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے اپنے ہیرا پھیری مالیاتی گوشواروں کے نتیجے میں لیا۔

انہوں نے فروری میں کہا تھا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہیں کہ فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی ادائیگی نیویارک کے شہریوں کو ملے۔‘

مس جیمز کو ایسا کرنے کے لیے ممکنہ طور پر عدالت کے حکم کی ضرورت ہوگی۔

ٹرمپ، ان کے بالغ بیٹوں، ٹرمپ آرگنائزیشن کے دو سابق عہدیداروں اور ٹرمپ رئیل اسٹیٹ سلطنت میں برانڈ بلڈنگ پراپرٹیز سے وابستہ اداروں کو خاندان کے کاروبار میں دھوکہ دہی کے خلاف تین سالہ تحقیقات اور مہینوں تک جاری رہنے والے مقدمے کے اختتام پر 46 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا۔

مدعا علیہان کو ایک دہائی پر محیط اس منصوبے میں ملوث پایا گیا تھا جس کے تحت ان کی مالی حالت کے سالانہ گوشواروں میں ان کی خالص مالیت اور اثاثوں کی قیمت کو دھوکہ دہی سے بڑھایا جاتا تھا جو ان کی کچھ جائیدادوں کے لیے زیادہ سازگار فنانسنگ شرائط حاصل کرنے کے لیے بینکوں اور قرض دہندگان کو دیئے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجموعی طور پر واجب الادا رقم جو اب ریاست پر واجب الادا ہے – وہ رقم جو مؤثر طریقے سے ’ناجائز منافع‘ کے طور پر ضبط کی جاتی ہے – تقریبا 36 کروڑ 40 لاکھ ڈالر بنتی ہے، جس میں اضافی 100 ملین ڈالر سود بھی شامل ہے۔

فیصلے کے بعد سود روزانہ نو فیصد سالانہ کی شرح سے جمع ہو رہا ہے، یا تمام مدعا علیہان کے لیے 114،000 ڈالر سے زیادہ ہے، جس میں صرف صدر ٹرمپ کے ذمہ تقریبا 112،000 ڈالر شامل ہیں۔

صدر ٹرمپ نظریاتی طور پر اس رقم کو پورا کرنے کے لیے اپنی جائیدادیں فروخت کرنا شروع کر سکتے ہیں، لیکن ان کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ ان کے رئیل اسٹیٹ اثاثوں جیساکہ مار لاگو اور نیویارک میں 40 وال سٹریٹ کی قیمت داؤ پر لگی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

جیمز نے کہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کے پاس فنڈز نہیں ہیں ’تو ہم عدالت میں فیصلے کے نفاذ کا طریقہ کار تلاش کریں گے اورجج سے ان کے اثاثے ضبط کرنے کے لیے کہیں گے۔‘ ایک ایسا فیصلہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا دفتر مسٹر ٹرمپ کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کا عمل شروع کر رہا ہے۔

چونکہ سول فراڈ کا مقدمہ مین ہیٹن میں درج ہوا، جہاں ٹرمپ ٹاور اور 40 وال سٹریٹ واقع ہیں، اس لیے وہاں پہلے ہی ایک فیصلہم جاری ہو چکا ہے۔

تاہم، ان جائیدادوں پر بڑے پیمانے پر واجب الادا قرضوں کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ضبط کیے جانے کا سب سے زیادہ امکان نہیں ہے۔

اس کے بجائے، سات مارچ کو جمع کرائی گئی فائلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستی وکیلوں نے نیو یارک کی ویسٹ چیسٹر کاؤنٹی میں کاؤنٹی کلرک کے دفتر میں مین ہیٹن سول فراڈ کے مقدمے کا فیصلہ جمع کرا دیا ہے، جہاں سابق صدر کی سیون سپرنگز سٹیٹ اور ٹرمپ نیشنل گالف کلب ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے تالے لے کر گھر گھر نہیں جائیں گے۔ جیمز کو صدر ٹرمپ سے منسلک جائیدادوں کو نشانہ بنانے کے لیے عدالت کی منظوری بھی درکار ہوگی۔

قانونی ماہرین کے مطابق اٹارنی جنرل پہلے ان کے بینکوں کی تلاشی لیں گے، جس کے لیے پہلے عدالتوں اور قرض دہندگان کو ان کے مندرجات کی نشاندہی کرنی ہوگی۔

اس کے بعد ریاست صدر ٹرمپ کے بینکوں کو ایک نوٹس بھیج سکتی ہے جس میں ان سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے مطابق پیسے وصول کرنے کے لیے ان کے اکاؤنٹس منجمد کریںور سکیورٹی باکسوں میں رکھی گئی نقد رقم، بانڈز یا دیگر اثاثے فراہم کریں۔

ریاست صدر ٹرمپ کی جائیدادوں میں بیٹھے کرایہ داروں سے کرایہ بھی وصول کر سکتی ہے تاکہ ان سے ادائیگیاں وصول کرنا شروع کی جا سکیں۔

ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران پیسے جمع کرتے رہیں گے

گذشتہ سال اس کیس میں ایک ٹیپ شدہ بیان کے دوران صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس 40 کروڑ ڈالر سے زائد نقد رقم موجود ہے۔

ان کی مالی حالت کے بارے میں 2021 میں دیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان کے پاس تقریبا 29 کروڑ 40 لاکھ ڈالر نقد تھے۔ یہ فراڈ کیس میں مرکزی اور مقدمے کی تازہ ترین دستیاب دستاویز ہے

صدر ٹرمپ کی قانونی لڑائیوں نے ان کی مالی حالت کے بارے میں اہم سوالات کو جنم دیا ہے، وہ کس طرح اور کہاں سے اپنے مقدمات کے لیے لاکھوں ڈالر جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، دوبارہ صدارت جیتنا انہیں قانونی پریشانی سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔

وہ سابق صدر کے خلاف ای جین کیرول کے مقدمے سے پیدا ہونے والے ہتک عزت کے فیصلے کے خلاف اپنی اپیل میں پہلے ہی تقریبا نو کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے مچلکے حاصل کر چکے ہیں۔

انہیں آٹھ کروڑ 33 لاکھ ڈالر کے فیصلے میں سے 110 فیصد رقم جمع کرانی تھی تاکہ اپیل کی سماعت کے دوران وصولیوں کو روکا جا سکے۔

صدر ٹرمپ نے چب کارپوریشن کے ماتحت ادارے فیڈرل انشورنس کمپنی کے ذریعے قرض حاصل کیا تھا، جس کے سی ای او کو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران ٹریڈ ایڈوائزری کمیٹی میں لگایا گیا تھا۔

لیکن وہ کمپنی ان کے دھوکہ دہی کے فیصلے میں اس کے بانڈ کی حمایت کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔

مسٹر ٹرمپ کے وکیل کے مطابق چب نے ٹرمپ کو بتایا کہ کمپنی رئیل سٹیٹ کو ضمانت کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے فنڈ ریزنگ نے ان کے حامیوں سے لاکھوں ڈالر جمع کیے ہیں تاکہ ان کی قانونی فیس اور ان کے مقدمات پر کام کرنے والے وکلا کی ادائیگی کی جا سکے۔

دریں اثنا، وہ ارب پتی عطیہ دہندگان کو راغب کر رہے ہیں اور جی او پی کے مالیاتی نظام کو ایک ایسے نظام میں تبدیل کر رہے ہیں جو ان کی انتخابی مہم کو مالی اعانت فراہم کر سکے۔

وہ اپنی ٹروتھ سوشل پیرنٹ کمپنی اور پبلک ٹریڈڈ شیل کمپنی ڈیجیٹل ورلڈ ایکوزیشن کارپوریشن کے درمیان طویل عرصے سے متوقع انضمام سے بھی بڑے منافع کی توقع کر رہے ہیں۔

’ڈی جے ٹی‘سٹاک سمبل، جو اس مہینے دوبارہ وال سٹریٹ  میں آنے والا ہے، کو اس سے قبل ٹرمپ ہوٹلز اور کیسینو ریزورٹس نے پبلک ٹریڈڈ کمپنی کے لیے استعمال کیا تھا، جو کہ 2004 میں دیوالیہ ہو گئی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ