کراچی ڈیفنس میں قائم جامعہ مسجد عیسیٰ کے مؤذن قاری سراج احمد کو اذان دینے کے تین لہجوں میں ملکہ حاصل ہے۔
قاری سراج نے اپنی اس صلاحیت کا عملی مظاہرہ انڈپینڈنٹ اردو سے ویڈیو انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے تینوں لہجوں میں اذان کے چند الفاظ کہے اور ان میں موجود بنیادی فرق کو ظاہر کیا۔
قاری سراج نے اپنے مؤذن بننے کے سفر پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی دین کی طرف رغبت تھی۔
’میرے بھائی بھی دین کی درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ میں نے بھی قرآن مجید حفظ کر رکھا ہے۔ میمن مسجد سے دینی کورس بھی مکمل کیا ہے۔ میں کئی مساجد میں مؤذن رہا ہوں اور اب اس مسجد میں اذان دینے کے علاوہ امامت بھی کرتا ہوں۔‘
سراج کہتے ہیں کہ ’میری آواز بچپن سے ہی اچھی تھی تو مدرسے میں بھی مجھے ہی اذان کے لیے کہا جاتا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ میں نے محفلوں میں بھی اذان دی تو میرے اندر جستجو بڑھتی گئی کہ بہتر سے بہتر انداز میں اذان کی صدائیں بلند کروں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سراج نے بتایا: ’یہ اذان کی طاقت اور روحانی لذت ہی ہے جس نے بہت سے غیر مسلموں کو متاثر کیا اور ان کے اسلام میں داخلے کا سبب بنا۔ یعنی یہ بذات خود ایک تبلیغ ہے۔‘
سراج احمد کا کہنا تھا: ’میری خواہش ہے کہ میں قومی سطح پر اذان کے مقابلے میں حصہ لوں۔‘
انہوں نے اذان کے تین سب سے زیادہ مشہور لہجوں کے حوالے سے بھی بتایا جو مصری لہجہ، مسجد نبوی میں دی جانے والی اذان کا لہجہ اور مسجد الحرام میں دی جانے والی اذان کا لہجہ ہے۔ انہیں ان تینوں لہجوں پر عبور حاصل ہے۔
سراج نے بتایا: ’مصری لہجہ دھیما اور میٹھا لہجہ ہوتا ہے۔ مسجد نبوی اور مسجد الحرام میں دی جانے والی اذان اونچی آواز میں دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی زیادہ تر عربی یا حجازی لہجے میں اذان دی جاتی ہے۔‘
سراج نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک جامع مسجد میں اپنی پہلی اذان کا ذکر کیا جو ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
سراج کہتے ہیں کہ ’2010 میں ایک مسجد کے مؤذن نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ فجر کی اذان دینی ہے جس کے لیے میں بہت پرجوش اور خوش تھا کہ ان کی آواز میں اذان کی صدائیں فضاؤں میں گونجیں گی۔ یہ وقت میرے لیے کسی عید کے دن سے کم نہیں تھا۔ پوری رات میں سو نہیں سکا اور ہر تھوڑی دیر بعد جاگ جاتا کہ کب فجر ہو اور کب اذان دوں۔‘
جامعہ مسجدعیسیٰ کی خاصیت کیا ہے؟
کراچی کے علاقے ڈیفنس میں واقع مسجد عیسیٰ اپنی خوبصورتی اور فن تعمیر میں ایک الگ مقام رکھتی ہے۔
اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرز پر بنائی گئی ہے۔
گنبدِ خِضرا جیسا سبز گنبد اور مین ہال میں داخلے کے لیے بنائے گئے دروازے بھی مسجدِ نبوی کی طرز تعمیر سے مشابہت رکھتے ہیں۔
اس مسجد میں چار سے پانچ ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں جبکہ خواتین کے لیے بھی الگ مسجد کا اہتمام کیا گیا ہے۔
مسجد کا نقشہ خاص ترکی سے منگوایا گیا تھا اور قالین بھی ترکی سے منگوا کر بچھایا گیا ہے جبکہ رنگین شیشے ایران سے لا کر مسجد میں لگائے گئے ہیں۔
پہلی قسط: نورالاسلام کا صوابی سے فیصل مسجد تک کا سفر
دوسری قسط: حجازی اور مصری لہجوں کے ماہر بادشاہی مسجد لاہور کے انیس الرحمٰن
تیسری قسط: اذان اور مؤذن: کینسر کو شکست دے پر مؤذن برقرار رہنے والے کوئٹہ کے عبدالسمیع
چوتھی قسط: اذان اور مؤذن: شگر کی 650 سالہ امبوڑک مسجد کے نور محمد
پانچویں قسط: اذان اور مؤذن: پشاور کی تاریخی سنہری مسجد کے مؤذن مولانا اسماعیل
چھٹی قسط: حرم کی اذان کا ملتان کے محمد الیاس پر گہرا اثر