امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے تنازعات سے باہر رکھنا چاہتے ہیں: ٹرمپ

امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے علاوہ بھی ’کئی آپشنز‘ موجود ہیں جبکہ 48 گھنٹوں میں ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔

امریکی اتحادی سعودی عرب نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اپنی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا تھا (اے ایف پی)

امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے علاوہ بھی ’کئی آپشنز‘ موجود ہیں جبکہ 48 گھنٹوں میں ایران پر نئی پابندیوں کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔

ایران پر حملے کے حوالے سے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس کئی آپشنز موجود ہیں، یہ ایک انتہائی اقدام ہے لیکن ہم اس سے کہیں کم لائحہ عمل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ’انتہائی قدم‘ کا مطلب ’جنگ‘ ہے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اعلان کردہ پابندیوں کو ’آئندہ 48 گھنٹوں‘ میں عوام کے سامنے لایا جائے گا۔

امریکی اتحادی سعودی عرب نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر اپنی تیل تنصیبات پر ہونے والے ڈرون حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ ابھی تک ری پبلکن پارٹی کی جانب سے سخت ردعمل دینے کے مطالبے کی مزاحمت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

’ہمارے پاس بہت وقت ہے جس میں کئی سخت اقدام لیے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم کچھ کرنا چاہیں گے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کر گزریں گے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا کہ وہ امریکہ کو مشرق وسطی میں جاری تنازعات سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عراق سمیت باقی تنازعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:’ اس کا کیا نتیجہ نکلا؟‘

امریکی حکام کی جانب سے اس بات کے واضع اشارے دیے جا رہے ہیں کہ وہ سعودی عرب کی جانب سے ایران پر عائد کیے جانے والے الزامات کو درست مانتے ہیں لیکن ایران ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ابھی تک اس بارے میں عوامی طور پر بات نہیں کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس موقع پر کہہ سکتے ہیں کہ وہاں جو ہوا ہم اس بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں۔‘

اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ایران کے صدر حسن روحانی سے ڈرامائی ملاقات کی امید کر رہے تھے لیکن سعودی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد ایسا بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

بدھ کو ایرانی سرکاری میڈیا پر بتایا گیا کہ صدر روحانی اور ان کے وفد کو امریکی ویزے حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو جو اس وقت سعودی عرب کے دورے پر ہیں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کیا لیکن انہوں نے تجویز دی کہ ایرانی وفد کو ان کے ملک کی ’دہشتگردی‘ کی وجہ سے ویزے جاری نہیں کرنے چاہییں لیکن صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’اگر میرے بس میں ہوتا تو میں انہیں آنے دیتا۔‘

مائیک پومپیو اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات بھی ہوئی ہے۔

ملاقات سے قبل گذشتہ روز سعودی وزارت دفاع کے ترجمان نے تیل کی تنصیبات پر حملے کے لیے استعمال کیے جانے والے کروز میزائلوں اور ڈرونز کا ملبہ بھی دکھایا ہے۔

سعودی حکام کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں ایرانی ڈرون اور کروز میزائل استعمال کیے گئے۔

ڈرونز اور کروز میزائل

سعودی وزات دفاع کے ترجمان کرنل ترکی المالکی کے مطابق: ’ان حملوں میں 25 ڈرون اور میزائلوں کے ذریعے تیل تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں ایرانی ڈیلٹا ونگ کے ڈرون اور ’یاعلی‘ کروز میزائل استعمال کیے گئے۔‘

ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ ’یہ حملے شمال سے کیے گئے اور ان میں ایران کے ملوث ہونے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ جو ثبوت آپ نے دیکھے ہیں یہ ناقابل تردید ہیں۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کرنل مالکی نے مزید بتایا ہے کہ حکام حملوں کے لیے استعمال کیے گئے مقام کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔

انہوں نے بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کہ کیا یہ حملے ایران نے کیے ہیں؟

ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ایرانی صدر کے ایک مشیر نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ:’ اس پریس کانفرنس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔‘

ادھر حوثیوں کی جانب سے بھی ان حملوں میں استعمال کیے جانے والے ڈرونز کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔ ان کی جانب سے یہ دھمکی بھی دی گئی کہ متحدہ عرب امارات کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

تاہم کرنل مالکی نے اس بات کو دہرایا کہ یہ حملے یمن سے نہیں کیے جا سکے اور حوثی ان حملوں میں ایران کے ’کردار کو چھپا رہے ہیں۔‘

ان کا کہناتھا کہ ’کروز میزائلوں سے اس قدر درست نشانے لگانا ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی صلاحیت سے باہر ہے۔ حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ شمال سے جنوب کی جانب کیے گئے۔‘

 کرنل مالکی کے مطابق ابقیق پر حملوں میں 18 ڈرونز اور تین میزائل استعمال کیے گئے۔ استعمال کیے جانے والا یا علی کروز میزائل 700 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا