بہاولنگر کے ’افسوس ناک‘ واقعے کی مشترکہ تحقیقات ہوں گی: پاکستان فوج

پاکستان فوج نے بہاولنگر واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ واقعے کی منصفانہ انکوائری کے لیے سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔

پنجاب پولیس کے ایکس اکاؤنٹ پر 10 اپریل 2024 کو واقعے کے حوالے سے جاری بیان پر منسلک تصویر (ایکس، پنجاب پولیس)

پاکستان فوج نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ فوج اور پولیس نے مشترکہ کوششوں سے بہاول نگر میں پیش آئے واقعے کو فوری حل کر لیا۔

پاکستان فوج کے ترجمان محکمے آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں بہاولنگر میں پیش آئے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ معاملہ حل ہونے کے باوجود ’مخصوص مقاصد کے حامل بعض دھڑوں نے ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کر دیا۔

بیان کے مطابق واقعے کی منصفانہ انکوائری کو یقینی بنانے اور قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے غلط استعمال کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے، حقائق کا پتہ لگانے اور ذمہ داری کے تعین کے لیے سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔

اس حوالے سے جاری شدہ اپنے پیغام میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ ’پنجاب پولیس کا مورال وہ بنیاد ہے جس سے ہم دہشت گردوں، چوروں اور ڈاکوؤں سے لڑتے ہیں۔ بہاولنگر کے واقعہ پر سوشل میڈیا پر اداروں میں ٹکراؤ کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی، دونوں اداروں نے مشترکہ طور پر اس کا فوری ایکشن لیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ملک دشمن کالعدم تنظیم واقعے کو بنیاد بنا کر عوام میں اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کالعدم تنظیم یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اب ہم خدانخواستہ دشمن کے پیچھے نہیں جائیں گے۔‘

’ پنجاب پولیس کے جوانوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے بعض پرانے واقعات کی ویڈیوز کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ’سپیشل انیشئیٹو پولیس سٹیشنز کے ایس او پیز کو فالو نہ کرنے کی وجہ سے واقعہ پیش آیا۔‘

پچھلے دونوں سوشل میڈیا پر پاکستان فوج کے اہلکاروں کی بہاولنگر میں مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر تشدد کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔

سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کے حوالے سے شدید ردعمل دیکھنے کو ملا تھا اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے پنجاب پولیس چیف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

ان ویڈیوز کے حوالے سے پنجاب پولیس نے 10 اپریل کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسے ایک ’معمولی‘ واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اسے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا: ’یہ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے پاک فوج اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہوئی ہے۔‘

’سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ باتیں وائرل ہونے کے بعد دونوں اداروں کی طرف سے فوری جوائنٹ انوسٹی گیشن کی گئی جس میں دونوں اداروں کے افسران نے تمام حقائق کا جائزہ لیا اور معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا۔‘

پنجاب پولیس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’پاک فوج اور پنجاب پولیس دہشت گردوں، شرپسندوں اور خطرناک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پورے صوبے میں مشترکہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عوام سے درخواست ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے جعلی پروپیگنڈا پر کان نہ دھریں۔‘

نامہ نگار ارشد چوہدری نے ترجمان پنجاب پولیس سے رابطہ کر کے واقعے کی تفصیلات اور اس سے متعلق تحقیقات کے بارے میں پوچھا تو ترجمان نے بتایا کہ وہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں کر سکتے کیونکہ دونوں اداروں کے افسران کی کوششوں سے معاملہ حل کر لیا گیا ہے اور اس پر محض قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان