ہمارے جاننے والے ایک شہری بابو برطانیہ سے گوری بیاہ لائے۔ نڈر اور بے باک سی میم اپنے اخلاق باختہ و حیاسوز معاشرے سے نکل کر ایک سنجیدہ و برگزیدہ سماج میں پہنچی توکچھ پریشان سی رہنے لگی۔
ایک غیر نظریاتی ریاست سے نظریاتی مملکت میں آنے والی کو یہاں کی پاکیزہ اور لازوال محبت کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ہمارے گاؤں آتی تو شکایت کرتی کہ وہ گھر سے نکلتی ہے تو مرد اسے گھورتے ہیں اور موقع ملے تو چھیڑ چھاڑ کی دیگر نازیبا کارروائیاں بھی کر گزرتے ہیں۔
جلد ہی اس نے ساس محترمہ کی لگائی بجھائی پر اپنے شوہر کی طرف سے گالم گلوچ اور تشدد کا ذکر کرنا بھی شروع کر دیا۔ کئی اور ناقابل تحریر الزامات کے علاوہ گوری دکان داروں کی ٹھگی ٹُھگی اور دونمبری کی باتیں بھی کرنے لگی تھی۔
ہم نے اسے سمجھایا کہ ہر سر زمین کی اپنی اقدار اور روایات ہوتی ہیں، لہٰذا وہ منفی سوچ کی بجائے اس معاشرے کی لاتعداد مثبت سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ میم پر ہماری نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے اپنی فضول شکایات کاسلسلہ جاری رکھا تو ہمیں شک گزرا وہ کسی بین الا قوامی ایجنڈے کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بدنام کرنے کے خاص مشن پر یہاں آئی ہے۔
غالباً اپنے اسی مشن کی تکمیل کی خاطر ایک دن گوری شاپنگ کے بہانے لاہور،انارکلی میں جا گھسی۔ واپس آ کر پھٹ پڑی۔ ایک تو اس کا پرس چوری ہو گیا تھا، اوپر سے اسے انارکلی والی پرجوش محبت سے بھی بھرپور واسطہ پڑا تھا۔
اب بظاہر تو بقول گوری، اس کی اپنے نئے خاوند اور نئے وطن سے وابستہ توقعات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی مگر ہمارے خیال میں اس کا سازشی کام مکمل ہو گیا تھا اور اس نے یورپ جا کر مملکت خداداد کو بدنام کرنے کے سارے سبق یاد کر لیے تھے۔ پس ایک دن وہ خاموشی سے اپنے غیر فطری معاشرے میں واپس چلی گئی، جس پر شرفائے شہر میں بے چینی اور غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
یہ انارکلی والی پر جوش محبت کیا ہوتی ہے بھلا؟ گئے دِنوں کی بات ہے، پی ٹی وی کے ایک ادبی پروگرام میں بانو قدسیہ نے دعویٰ کیا مرد نے کبھی عورت سے محبت نہیں کی۔ اشفاق احمد نے اپنی بیگم کی بات کی تردید کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ کہا، ’مرد انارکلی میں ایک سرے سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سرے تک وہاں موجود تمام عورتوں سے محبت کرتا چلا جاتا ہے۔‘
آج یہاں مغرب کی اندھی تقلید میں اس محبت کو جنسی ہراسانی کہا جاتا ہے اور اسی کی آڑ میں گوری کی طرح شرفا کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں۔ کہیں کوئی گلالئی بولتی ہے تو کہیں کوئی میشا، اور پھر ’می ٹُو‘ کا نہ رکنے والا شور و غل۔
بھائیو! اب تو ’میرا جسم، میری مرضی‘ کی آتش ناک تحریک دیکھ کر لگتا ہے یہ آدھی گواہی والیاں ہمیں ملک بدر کر کے ہی دم لیں گی۔
عرض یہ ہے تھوڑی بہت ہراسانی تو ہر زندہ معاشرے میں ہوتی ہی ہے مگر اس کو جواز بنا کر اپنے ہی وطن کی عزت کے درپے ہو جانا کون سی عقل مندی ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک خاتون نے لکھا مرد ہمیں ہراساں کرنے کے لیے جتنے حربے استعمال کرتے ہیں، اگر وہ اتنی محنت ملکی ترقی کے لیے کریں توہم ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہو جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت خوب! گویا اس ملک نے اب تک جوحیرت انگیز ترقی کی ہے، وہ کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ ہے۔ حقیقت یہ ہے اس ملک کے مرد ایسی شاندار صلاحیتوں سے مالامال ہیں کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑانے کے علاوہ فحاشی اور بین الاقوامی سازشیں بھی ان کی عقابی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں۔
ہم فحاشی شٹل کاک سے بھی برآمد کر لیتے ہیں اور سازشیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں، یہود و ہنود کی موجودہ چال بھی ہم خوب سمجھتے ہیں۔
عورتوں کے حقوق کی آڑ میں یہ اس واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو اخلاقی اعتبار سے تباہ کرنے کی سوچی سمجھی اور گہری سازش ہے۔ مغرب سے آئے اس نام نہاد شعور کے نتیجے میں فروغ پانے والے غیر اخلاقی لباس، بے پردگی، مخلوط تعلیم اور مرد و زن کا آزادانہ میل ملاپ ہی جنسی ہراسانی اور ریپ کے اکا دکا واقعات کے حقیقی اسباب ہیں، ورنہ ہم مرد تو دامن نچوڑ دیں تو پتہ نہیں کیا ہو جائے۔
کوئی ان بیبیوں کو اپنی شاندارتاریخ سے روشناس کرائے کہ صدیوں پہلے جب ان کا پسندیدہ یورپ تاریکیوں میں ڈوباہوا تھا،ہم ترقی یافتہ اور علم وتحقیق کی معراج پر تھے۔ تب ہم عورتوں کے تحفظ کی خاطر لونڈیوں اور کنیزوں کے پرشکوہ حرم سرا رکھتے تھے۔
آج بھی ہمارے ہاں جو حقوق خواتین کو حاصل ہیں، کسی دوسرے ملک کی عورتیں ان کا خواب ہی دیکھ سکتی ہیں۔ ہمارے ملک میں صنف نازک کی حفاظت کی خاطر ہراسمنٹ ایکٹ 2010 نافذ ہے۔
یہاں کی خواتین خوش قسمت ہیں کہ محترمہ کشمالہ طارق جیسی دبنگ خاتون وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی مقرر ہیں، جو انہیں ہراساں کرنے کی ہر واردات کے آگے ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ البتہ افسوسناک امر یہ ہے اس ایکٹ میں مردوں کو ہراساں کر نے والیوں کے خلاف کوئی شق شامل نہیں کی گئی، حالانکہ یہ ہراسانی دوطرفہ ہے اور اس کام میں خواتین بھی کچھ کم نہیں۔ مصطفیٰ زیدی نے فریاد کی تھی ’میرا تو جرم تذکرۂ عام ہے مگر،کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں۔‘
ان دھجیوں کی چند مثالیں عرض ہیں۔ آپ چھٹی کے دن ریلیکس موڈ میں لیٹے ہوتے ہیں۔ تب وقفے وقفے سے آپ کو اس طرح کے تکلیف دہ جملوں کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے، ’سٹور کی چھت ٹپک رہی ہے،‘ ’کچن کی ٹیوب لائٹ خراب ہے،‘ ’میں پڑوس میں جا رہی ہوں، برتن دھو دینا،‘ وغیرہ۔
کبھی آپ گھر سے باہرجمالیاتی ذوق سے مالا مال کسی تخلیق کارخاتون سے ساتھ ادب پر تبادلہ خیال میں مصروف ہوتے ہیں۔اچانک آپ کے سمارٹ فون پر گھرسے کال آتی ہے اورآپ کے تبادلہ خیال کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ تب آپ کے موبائل پر ابھرنے والی کرخت آواز تخلیق کارخاتون بھی سنتی ہے’دہی لیتے آنا اورذارجلدی گھر آنا،پانی کی موٹررک گئی ہے‘اس وقت آپ کی زبان گنگ اورعزت کی دھجیاں بکھرچکی ہوتی ہیں۔
کبھی دفتر کی کوئی خوش شکل کولیگ یاراہ چلتی محترمہ آپ کو منہ بھر کے بھائی کہہ دیتی ہے توبھی آپ کی عزتِ نفس کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔اس کے علاوہ گھر میں ٹینڈے پکانابھی ہراسمنٹ کابدترین حربہ ہے۔یہ ناہنجار ٹینڈے اسی شام پکتے ہیں،جب موسم کی خرابی کی بناپرآپ دوستوں کے ساتھ باہر جاکر کچھ زہر مار کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔یہ صنف نازک کی طرف سے مردوں کو ہراساں کرنے کی چندخوفناک مثالیں ہیں مگران پرقانون انسدادہراسیت کی کوئی دفعہ نہیں لگتی۔
مختصر کرتے ہوئے حاصل کلام پر آتے ہیں۔ حالات کی روشنی میں واضح ہے کہ دوطرفہ ہراسانی کی اس جنگ میں آخری فتح خواتین کی ہو گی اور وہ مردوں کو دیس نکالا دے کر ہی دم لیں گی۔ پاک سرزمین میں ہراسانی کے مسئلے کا حل بھی یہی ہے۔
شرط فقط یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی اس تحریک میں ہوا بھرنے والے اہل مغرب ہم مردوں کو اپنے ممالک کی شہریت دے دیں۔ ہم بادل نخواستہ اپنا ملک ’میراجسم، میری مرضی‘ والیوں کے حوالے کر کے وہاں آ جائیں گے اور گورِیوں کے ساتھ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیں گے۔ اللہ مالک ہے۔