اس ہفتے لندن کی سڑکوں پر بھاگنے کے واقعے کے بعد کیولری یونٹ کے تربیت یافتہ گھوڑوں کی فلاح و بہبود کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ برطانوی حکومت لوگوں کی دماغی صحت کے بحران کے بارے میں اتنی سنجیدہ نہیں ہے۔
گذشتہ سال مختلف امراض کی وجہ سے ہم میں سے ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور جیسا کہ وزیر اعظم رشی سونک نے گذشتہ ہفتے اپنے ’سِک نوٹ کلچر‘ پر اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ ان ملازمتوں کی برطرفیوں میں سے نصف کی وجہ ڈپریشن یا انزائٹی تھی۔
کرونا وبا کے اثرات اور ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے، یہ میرے لیے حیرت کی بات نہیں ہے کہ ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
لیکن ورک اینڈ پنشن سیکریٹری میل سٹرائیڈ کا ماننا ہے کہ ’معمولی دماغی صحت‘ جیسی صورت حال کا سامنا کرنے والے افراد کو ’سِک بینیفٹ پیمنٹ‘ نہیں ملے گی جو میرے جیسے لاکھوں لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ دماغی صحت کے مسائل سے نمٹنا کتنا دشوار ہے۔
سٹرائیڈ نے کہا کہ حکومت کو ان لوگوں کو ’زندگی کی عام مشکلات‘ سے نمٹنے کے لیے ادائیگی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں علاج تک بہتر رسائی کی پیشکش کی جائے گی لیکن میں نے خود این ایچ ایس کی ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی کے لیے ایک سال انتظار کیا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز اور غیر حقیقی حل معلوم ہوتا ہے۔
میں مینٹل ہیلتھ فرسٹ ایڈ کے لیے کام کرتی تھی اور ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے میں مختلف تنظیموں کے ساتھ کام کرنے کا بہت تجربہ ہے۔ میں نے ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے لیے بھی تربیت کا اہتمام کیا ہے۔
ہمیں ملازمت میں رہنے کے لیے اگر وہ ایسا چاہیں تو ڈپریشن اور انزائٹی میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے کام اور رضاکارانہ خدمات صحت یابی کے لیے اہم ہو سکتی ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ کام کی جگہوں کو مسلسل بنیادوں پر ذہنی بیماری میں مبتلا لوگوں کی مدد کے لیے تربیت دینے کی بھی ضرورت ہے۔ کتنے مینیجرز کہہ سکتے ہیں کہ وہ بحران پر ردعمل دینے کے علاوہ ایسا کر رہے ہیں؟
سٹرائیڈ نے کہا کہ فلاحی نظام کو ان حالات میں ’مناسب فرق‘ کرنے کے لیے بہتر بنانے کی ضرورت ہے جو ملازمین کے کام کو ناممکن بنا رہے ہیں اور وہ جو اس کا باعث نہیں ہیں۔
لیکن کسی بھی شدت کی ڈپریشن کو اس فہرست میں شامل کرنا غیر ذمہ دارانہ محسوس ہوتا ہے جب کہ اس کی خودکشی، موت اور خود کو نقصان پہنچانے کے خیالات کی طرح سنگین ترین علامات ہو سکتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں تک کہ یہ تجربہ کرتے ہوئے کہ کچھ وقت ہی کافی ہوتا ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ کسی کو اپنی روزمرہ کے کام کے دباؤ سے وقفے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک حقیقی خطرہ بھی ہے جیسا کہ بہت ساری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی اپنا علاج کرانے میں اتنی دیر کر دیتا ہے کہ اس کا مرض بگڑ جاتا ہے جس سے انہیں مزید چھٹیوں کی ضرورت پڑتی ہے اور معاشی طور پر بھی زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
’پریزنٹیززم‘ میں بھی لوگ بیماری محسوس کرنے کے باوجود کام کرتے ہیں جو برن آؤٹ اور طویل مدتی مرض کی ایک اہم وجہ ہے جس کے نتیجے میں چھٹیاں لینے کی وجہ سے کاروبار کو ہر سال کروڑوں پاؤنڈ کا نقصان ہوتا ہے۔
میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ یہ ایک شیطانی چکر ہے۔ جب میری والدہ کو گذشتہ سال کینسر کی تشخیص ہوئی تو میں نے دوسروں کو ٹوٹا ہوا دکھانے کے خوف سے اپنے آپ کو مزید کام میں لگا دیا۔ اس کی وجہ سے نیند نہ آنا اور دل کی دھڑکن میں دباؤ کا ایک عام ردعمل ہے۔
یہ تب ہوا جب میں کچھ مہینوں بعد چھٹیوں پر گئی اور مجھے ایک ہفتہ طویل ڈپریشن کا دورہ پڑا جس سے مجھے احساس ہوا کہ یہ کچھ زیادہ ہی سنگین ہو گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں مجھے زیادہ وقت نکالنا پڑا، اس وقت مجھے واقعی کام سے کچھ دن دور رہنے کی ضرورت پڑی جب ایسا پہلی بار ہو رہا تھا۔
ذہنی بیماری کو ایک عام ’روزمرہ‘ کے مسئلے کے طور پر گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش تشویشناک ہے۔ جی ہاں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی پوری زندگی میں ’مشکل چیزوں‘ کا تجربہ کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سب ایک جیسا ردعمل ظاہر کریں گے یا ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔
میرے لیے رشی سونک اور میل سٹرائیڈ کے یہ بیانات گھسے پٹے ہو چکے ہیں کہ دماغی امراض میں مبتلا لوگ واقعی بیمار نہیں ہوتے ہیں اور یہ کہ ہم سب کو ان کی بات پر یقین چاہیے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو بیماری کی چھٹی پر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی اگر ہمارے پاس صحت کی خدمات تک جلد رسائی ہوتی اور آخر کار حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کوئی بھی دستیاب تھوڑی سی مدد سے محروم نہ رہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent