پنجاب حکومت کی جانب سے آج جمعرات کو پیش کیے گئے بجٹ کو تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے بڑا بجٹ قرار دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن کے مطابق پنجاب حکومت کا بجٹ ٹیکس فری ہے اور اس کا حجم پانچ ہزار 446 ارب رکھا گیا ہے۔
اس میں ترقیاتی بجٹ کا حجم 842 ارب ہے اور نو ارب 50 کروڑ کی لاگت سے چیف منسٹر ’روشن گھرانہ پروگرام‘ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ کئی نئی سکیمیں شامل کی گئی ہیں، جن میں روشن گھرانہ‘ کے علاوہ ’اپنی چھت اپنا گھر،‘ ’کھیلتا پنجاب،‘ ایگری کلچر مالز، لائیو سٹاک کارڈز، بلاسود ٹریکٹر، شرمپ فارمنگ وغیرہ جیسے پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہیں وفاقی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے 22 سے 25 فیصد بڑھانے کی تجویز ہے جبکہ پینشن میں بھی 15 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔
پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی کے مطابق پی پی پی نے بھی بجٹ تجاویز کی تیاری پر اعتماد میں لینے پر بائیکاٹ کیا ہے۔
صحافیوں نے ہتک عزت قانون کے خلاف پریس گیلری کا بائیکاٹ کیا گیا اور اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ البتہ حکومت کی جانب سے یہ قانون واپس لینے سے صاف انکار کر دیا گیا ہے۔
تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’پنجاب حکومت نے بےشک پہلے سے زیادہ مالیت کا بجٹ پیش کیا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خسارہ بھی پہلے سے بڑھا ہے۔ عوام کے لیے مشکلات اپنی جگہ برقرار ہیں اگرچہ صوبائی حکومت نے نئے ٹیکس نہیں لگائےمگر وفاقی بجٹ نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ ڈال کر پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔‘
نئے اعلانات
صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ پہلے مرحلے میں 100 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کو مکمل سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا- 10ارب کی لاگت سے ’اپنی چھت اپنا گھر‘ پروگرام شروع کیا گیا ہے، پانچ لاکھ کسانوں کو 75 ارب کے قرض دیے جارہے ہیں۔ نو ارب کی لاگت سے چیف منسٹر سولرائزیشن آف ٹیوب ویلز پروگرام سے 7000 ٹیوب ویلز پر منتقل ہوں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’کسانوں کو 30 ارب کی لاگت سے بغیر سود ٹریکٹرز فراہم کیے جائیں گے، سوا ایک ارب کی لاگت سے ماڈل ایگری کلچر مالز کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جب کہ دو ارب کی لاگت سے لائیو سٹاک کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے۔
’اس کے علاوہ ایک ارب کی لاگت ایگری کلچر شرمپ فارمنگ کا آغاز ہو گا اور پانچ ارب کی لاگت سے لاہور میں ماڈل فش مارکیٹ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ 80 ارب روپے کی لاگت سے چیف منسٹر ڈسٹرکٹ ایس ڈی جیزپروگرام کا آغاز جس کے ذریعے ضلعی سطح پر ترقیاتی ضروریات کو پورا کیا جا رہا ہے۔‘
مجوزہ بجٹ میں 296 ارب روپے کی لاگت سے 2380 کلومیٹر سٹرکوں کی تعمیر و بحالی اور 135 ارب روپے کی لاگت سے 482 سکیموں کے تحت خستہ حال اور پرانی سڑکوں کی مرمت و بحالی کے لیے مختص ہوں گے۔ ڈھائی ارب روپے کی لاگت سے انڈر گریجوایٹ سکالر شپ پروگرام اور دو ارب 97 کروڑ روپے کی لاگت سے چیف منسٹرز سکلڈ پروگرام شروع کیا گیا ہے جب کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
بجٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ زرمبادلہ میں اضافے کے لیے تین ارب روپے کی لاگت سے پنجاب میں پہلے گارمنٹس سٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جب کہ سات ارب روپے کی لاگت سے ’کھیلتا پنجاب‘ کے بڑے منصوبے کا آغاز ہو گا جس کے تحت تمام صوبائی حلقوں میں میدان اور کھیلوں کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
علاوہ ازیں پنجاب بھر میں کھیلوں کی موجودہ سہولیات کی بحالی وتعمیر نو کے لیے ساڑھے چھ ارب روپے کی لاگت سے ایک بڑا منصوبہ بھی آئندہ مالی سال میں شروع کیا جا رہا ہے۔
وزیر خزانہ کے بقول ’ڈیجیٹل پنجاب کا وز یر اعلیٰ مریم نواز کا خواب تیزی سے حقیقت میں بدل رہا ہے۔ تین ماہ کی قلیل مدت میں پاکستان کے پہلے ’نوازشریف آئی ٹی سٹی‘ کی بنیاد شہر لاہور میں رکھ دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ تک آسان رسائی ڈیجیٹل پنجاب کے منصوبے کا بنیادی جزو ہے۔‘
حکومتی اقدامات اور عوامی مشکلات
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے کسانوں اور غریب طبقے کے لیے بجٹ میں اچھی تجاویز پیش کی ہیں، مگر لوگوں کا روزگار کا مسئلہ اور مہنگائی برقرار ہے، پہلا بجٹ پیش تو کردیا گیا لیکن اعلانات پر عمل درآمد ہونے تک نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومتی اخراجات کم کر کے محکموں کی کارکردگی میں اضافے کی عملی حکمت عملی واضح نہیں ہے۔ گورننس بہتر کر کے محکموں کی صلاحیتوں میں اضافہ کر کے لوگوں کو ریلیف کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگرچہ بجٹ اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عوام تو مسائل کا حل چاہتی ہے جس کے لیے کارکردگی میں نمایاں بہتری لانا ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صحت، تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے لیے بجٹ تو مختص ہوتا ہے مگر اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے کا نظام بہتر کرنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں کیے گئے اعلانات سے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے سنجیدہ اقدامات کرے۔‘