لاہور ہائی کورٹ کے ہفتے کو سامنے آنے والے ایک حکم نامے میں وزیر اعظم آفس کو کہا گیا ہے کہ وہ انٹیلی جنس بیورو اور انٹر سروسز انٹیلی جنس سمیت تمام سول اور ملٹری ایجنسیوں کو وہ کسی جج یا اس کے عملے کے کسی رکن سے رابطے کرنے سے روکے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے یہ حکم نامہ سرگودھا میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ایک جج کی جانب سے مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکاروں سے ملاقات سے انکار پر ہراساں کیے جانے کے خلاف دائر شکایت پر سماعت کے بعد جاری کیا۔
27 جون کے حکم نامے میں پنجاب میں انسداد دہشت گردی عدالتوں (اے ٹی سی) کے ججوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے موبائل فونز پر کال ریکارڈنگ ایپلی کیشنز انسٹال کریں۔
حکم نامے کے مطابق: ’(جج صاحبان) ایسی تمام کالز کو ریکارڈ کرنے کے پابند ہوں گے، جو انہیں موصول ہوتی ہیں اور جن کے بارے میں ججوں کو خدشہ ہے کہ وہ ان کے سامنے کسی بھی عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کے لیے کی گئی ہیں۔‘
حکم نامے میں پنجاب کے اے ٹی سیز کے ججوں کو نو مئی، 2023 سے متعلق مقدمات کو تیزی سے اور ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔
جسٹس شاہد کریم نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ ’تمام تحقیقاتی کارروائیوں کو ویڈیو ریکارڈ کیا جانا چاہیے جو پولیس کے ذریعے برقرار رکھا جائے گا اور رجسٹرار کے ذریعے اس عدالت کو بھیجا جائے گا۔‘
حکم نامے میں جج نے نوٹ کیا کہ بعض معاملات پر آگے بڑھنا ’لازمی‘ تھا جو ’باقاعدگی سے اس عدالت کے سامنے آتے ہیں‘ اور جن کے بارے میں ’ہدایات ضروری ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد انہوں نے حکم دیا: ’وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے تمام سول یا ملٹری ایجنسیوں بشمول انٹیلی جنس بیورو کے ساتھ ساتھ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو ہدایات جاری کی جائیں گی کہ وہ کسی بھی جج یا ان کے سٹاف سے رابطہ نہ کریں، چاہے وہ اعلیٰ عدلیہ کا ہو یا ماتحت عدلیہ یا مستقبل میں ان کے عملے کا کوئی رکن۔‘
حکم میں مزید کہا گیا: ’اسی طرح انسپکٹر جنرل آف پولیس، پنجاب کی طرف سے تمام پولیس افسران کو ہدایات جاری کی جائیں گی کہ وہ اعلیٰ عدلیہ یا ماتحت عدلیہ کے کسی جج سے ان عدالتوں میں زیر التوا عدالتی کارروائی کے میرٹ کے بارے میں براہ راست رابطہ نہ کریں۔‘
اس میں مزید کہا گیا کہ پنجاب بھر میں اے ٹی سیز کی سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات صرف ’اس عدالت کے ماہر جج کی مشاورت اور رضامندی سے کیے جائیں گے نہ کہ دوسری صورت میں۔‘
حکم نامے میں انتباہ دیا گیا کہ انسپکٹر جنرل اور پولیس چیف کو ’ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔‘