اسلام آباد: جج کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر تین صحافیوں کو نوٹس جاری 

جسٹس طارق محمور جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین صحافیوں حسن ایوب، غریدہ فاروقی اور عمار سولنگی کو نوٹس جاری کیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

جسٹس طارق محمور جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین صحافیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’کئی دفعہ سمجھایا ہے سنگین مہم جوئی کی جاتی ہے اس کو نظر انداز نہیں جائے گا۔‘

چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں فل کورٹ نے پیر کو صحافی حسن ایوب، غریدہ فاروقی اور عمار سولنگی کو نوٹس جاری کیے۔

جسٹس طارق محمور جہانگیری فل کورٹ کا حصہ نہیں تھے، جب کہ بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار ، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ  ’کسی کا حق ہے، سو دفعہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جائے۔ لیکن ہم ججز کے خلاف سنگین مہم کو نظر اندازہ نہیں کریں گے۔ بہت ہو گئی لیکن جو اس میں ملوث نکلا اس کو نہیں چھوڑیں گے۔‘

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ایڈوکیٹ جنرل کو روسٹرم پر طلب کیا۔  چیف جسٹس نے کہا کہ ’جتنے ادارے ریگولیٹر بیٹھے ہوئے ہیں کیا ان کو نظر نہیں آ رہا۔ پی ٹی اے ، ایف آئی اے دیگر ریگولیٹرز کو نظر نہیں آ رہا۔‘

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے ’اٹارنی جنرل، وزیر قانون نے کچھ نہیں کہا، تاثر جا رہا ہے کہ حکومت اس کے پیچھے ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا ایف آئی اے پیمرا کو ہم بتائیں گے کیا کسی کو کوئی منع کر رہا ہے؟‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’جج کا جواب آئے گا تو حکومت اس کے مطابق کرے گی۔‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا ’کیا جج ٹویٹ کرے گا؟ آپ کو پتہ ہے کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ ادارہ جاتی جواب ہی ہے۔ جو ملوث ہوا وہ گرمیوں کی چھٹیاں جیل میں گزارے گا۔ کیا ججز بھی جواب دیں گے؟ کیا ہم بھی پھر پریس کانفرنس بلا لیں؟‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا ، پی ٹی اے ، ڈی جی ایف آئی اے کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔

سوشل میڈیا مہم

غریدہ فاروقی اور حسن ایوب کے ایکس اکاؤنٹ سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی وکالت کی ڈگری جعلی ہونے کے دعوے کیے گئے اور کہا گیا کہ 1991 میں حاصل کی گئی بنیادی وکالت کی ڈگری میں تضاد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی آف کراچی نے ڈگری جعلی ہونے کی تصدیق کی ہے۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث کا سلسلہ چل پڑا۔ 

معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لے کر ان اکاؤنٹس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان