جب 1896 میں ایتھنز میں جدید اولمپکس کھیلوں کا آغاز ہوا تو یہ مقابلے خالصتاً شوقیہ تھے اور پیشہ ور کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ جیتنے والوں کو نقد انعامات دینے سے بھی منع کیا گیا تھا۔
لیکن پیرس میں جاری اولمپکس گیمز میں ہر قسم کے کھلاڑی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں وہ کھلاڑی بھی شامل ہیں جو پہلے ہی بہت امیر ہیں اور سالانہ کروڑوں ڈالر کماتے ہیں جب کہ ایسے بھی ہیں جو اپنی تربیت اور کھیلنے کے لیے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے والے کھلاڑی مختلف ذرائع سے پیسے کما سکتے ہیں۔ پوڈیم پر جگہ حاصل کرنے کی صورت میں بہت سے ممالک اپنے کھلاڑیوں کو انعام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مالیاتی سپانسرز اور ان کے ممالک کی طرف سے دیے جانے والی مالی امداد، دیگر ایوارڈز اور مالی اعزازات شامل ہیں۔
پاکستان کے سونے کا تمغہ جتنے والے ایتھلیٹ ارشد ندیم کو بھی تمغے میں کچھ سونے کی مقدار کے علاوہ حکومت کی جانب سے بھاری انعام ملنے کی امید ہے۔ تاہم ان کے علاوہ مشہور ایفل ٹاور سے براہ راست لیا گیا مرکز میں ایک ہیکساگونل ٹکڑا بھی ملا ہے۔
اس سال کے شروع میں، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ دھات کا 0.6 اونس ٹکڑا - جو ’پڈل آئرن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے پر مشتمل ہے۔ اس کو مشہور ٹاور کے ڈھانچے کے کچھ حصوں سے بنا کر گیمز میں دیئے جانے والے ہر تمغے میں سیٹ کیا گیا ہے۔
کیش ایوارڈ تمام اولمپک ایتھلیٹس کے لیے نہیں ہے۔
ہانگ کانگ سونے کے تمغوں کے سب سے بڑے انعامات دیتا کرتا ہے: تقریباً ساڑھے سات لاکھ امریلی ڈالر۔ امریکہ میں کھلاڑیوں کو تقریباً اڑتیس ہزار ڈالر فی گولڈ میڈل ملتا ہے۔ چاندی اور کانسی کے لیے یہ رقم کم ہے۔
سمتھ کالج کے ماہر اقتصادیات اینڈریو زمبلسٹ کے مطابق جب امریکی ایتھلیٹ سیمون بائلز اور کیٹی لیڈیکی اپنے تمغوں کے چیک کیش کراتے ہیں تو یہ لوگوں کے ٹیکس سے ادا نہیں ہوتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ میں ہماری اولمپک تحریک کو نجی طور پر فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں حکومت اسے فنڈ نہیں دیتی۔‘
امریکی اولمپک اور پیرا اولمپک کمیٹی تجارتی شراکت داروں اور عطیات پر انحصار کرتی ہے۔ کانگریس کے منظور شدہ ایک قانون کی بدولت البتہ ایتھلیٹ یہ رقم ٹیکس فری حاصل کرسکتے ہیں۔
ایم آئی ٹی کے ماہر اقتصادیات جون گروبر کا کہنا ہے کہ یہ مکمل طور پر منصفانہ نہیں ہے۔
’آپ کام پر جاتے ہیں، آپ اپنے اڑتیس ہزار ڈالر کمانے کے لیے ہفتے میں 60 گھنٹے گیس سٹیشن پر کام کرتے ہیں۔ آپ اس پر ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ اولمپک میں سونے کا تمغہ جیتنے والا شخص ایسا نہیں کرتا۔‘
گروبر نے کہا کہ گولڈ جیتنے سے ایتھلیٹوں کو اڑتیس ہزار ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کم منافع بخش کھیلوں میں بھی۔ کیونکہ یہ انہیں سپانسرشپ، موٹیویشنل لیکچروں اور ’شاید ملازمت کے انٹرویو میں ایک بہترین راستہ ہے۔‘
اگرچہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی جیتنے والوں کو مالی طور پر کچھ نہیں دیتی لیکن وہ قومی حکومتوں یا تنظیموں یا کھیلوں کی فیڈریشنوں کو کھلاڑیوں کو نقد یا دیگر انعامات دینے سے نہیں روکتی۔ اور اس سال، کچھ فیڈریشنوں نے پیرس گیمز میں ایسا کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔
2024 کے اولمپکس کے 32 کھیلوں میں سے صرف دو کھیلوں، ایتھلیٹکس اور باکسنگ کو نقد انعامات ملیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز، گیمز کی بین الاقوامی گورننگ باڈی نے اپریل میں غیر متوقع طور پر اعلان کیا کہ وہ 2024 پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والوں کو پچاس ہزار ڈالر انعام دے گی۔ کسی سپورٹس فیڈریشن کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا انعام ہے۔
ایک ماہ بعد، ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن نے بھی اعلان کیا کہ وہ نقد انعامات دیں گے۔ باکسنگ میں اولمپک چیمپئن بننے تک اس بین الاقوامی تنظیم کا انعام ایک لاکھ ڈالر ہے تاہم اس رقم کا ایک چوتھائی قومی کھیلوں کی فیڈریشنز اور دوسرا چوتھائی کوچز کو دیا جاتا ہے۔
دونوں زمروں میں، چاندی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والوں کو کم نقد انعامات بھی ملیں گے۔ البتہ بین الاقوامی باکسنگ ایسوسی ایشن پانچویں پوزیشن تک کے شرکا کو انعامات دیتی ہے۔
درحقیقت اولمپک حکام ان دونوں کھیلوں میں تمغہ جیتنے والوں کو براہ راست نقد انعامات نہیں دیتے بلکہ ان دونوں کھیلوں کے ڈویژن کے انچارج بین الاقوامی تنظیموں نے اولمپکس میں ان ڈویژنوں کے کھلاڑیوں کو انعامات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بین الاقوامی ایتھلیٹکس فیڈریشن بین الاقوامی اولمپک کمیٹی سے حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ مقابلے کی آمدنی کے حصے کے طور پر انعامات کی ادائیگی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا نقد انعام دینا صحیح ہے یا نہیں۔
لیکن اولمپک چیمپئنز کو بڑی رقم اور انعامات دینا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان میں سے بعض کو شدید مالی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اولگا کوربٹ، ایک سابق سوویت جمناسٹ جس نے اپنے کیریئر کے دوران چار طلائی اور دو چاندی کے تمغے جیتے تھے۔ تاہم 2017 میں اپنے تین تمغے تین لاکھ تینتیس ہزار ڈالر میں فروخت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
اولمپک میں گیمز جیتنے کے بعد ایتھلیٹس مالی انعامات حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔
اولمپک میں شریک بہت سے کھلاڑی اپنے ہی ملک میں ایوارڈز بھی حاصل کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ممالک میں سنگاپور اپنے میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کو سب سے بڑے ایوارڈ دیتا ہے۔ فی الحال، پیرس میں سونے کا تمغہ جیتنے والا سنگاپور کا ایک کھلاڑی ساڑھے سات لاکھ ڈالر کماتا ہے۔
میزبان ملک فرانس کے لیے یہ رقم 80 ہزار یورو ہے۔ مراکشی کھلاڑی بھی بہت زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔ اگر وہ گولڈ میڈل جیتتے ہیں تو انہیں دو لاکھ ڈالر ادا کیے جائیں گے۔
یہ رقم امریکہ کی طرف سے اعلان کردہ ایوارڈز سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں، ’آپریشن گولڈ‘ نامی فاؤنڈیشن سونے کا تمغہ جیتنے والے ہر کھلاڑی کو ساڑھے سیتنیس ہزار ڈالر ادا کرتی ہے۔
برطانیہ، ناروے اور سویڈن جیسے کچھ ممالک اپنے کھلاڑیوں کو کوئی مالی انعام نہیں دیتے۔ لیکن برطانیہ میں اولمپک گیمز کی تربیت اور تیاری کے لیے کھلاڑیوں کو رقم دی جاتی ہے۔
سعودی حکام نے کراٹے ایتھلیٹ تارگ حمیدی کو ٹوکیو میں پانچ ملین ریال (تقریباً 1.33 ملین ڈالر) سے نوازا تھا باوجود اس کے کہ وہ ایک غیر قانونی کک پر نااہل ہونے کے بعد سونے کا تمغہ حاصل کرنے سے محروم ہو گئے تھے۔ انہیں 2021 میں ٹوکیو اولمپکس میں چاندی کا تمغہ ملا تھا۔
دیگر امیر خلیجی ریاستیں جیسے بحرین اور قطر بھی بھاری انعامات دینے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ 2005 میں قطر نے جنوبی افریقی تیراک رولینڈ شومین کو ملٹی ملین ڈالر کے معاہدے کی پیشکش کی، جس میں ہر اولمپک تمغہ یا عالمی اعزاز جیتنے کے لیے ایک ملین رینڈ ($50,000 سے زیادہ) بونس بھی شامل تھا- حالانکہ شومین نے بالآخر اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
کچھ ممالک میں نقد رقم کے علاوہ شاندار انعامات جیتنے والے ایتھلیٹوں کو لگژری کاروں سے لے کر اپارٹمنٹس تک دیے جاتے ہیں۔
ملائیشیا کے حکام نے اپنے کھلاڑیوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ پیرس سے میڈل لے کر آئیں گے تو انہیں غیر ملکی گاڑیاں دی جائیں گی جب کہ قازقستان میں اولمپک جیتنے والے قانونی طور پر اپارٹمنٹس کے حقدار ہوں گے - جن کا رقبہ ان کے میڈل کے مطابق ہوگا۔
گولڈ میڈل کی قیمت
اس سال کے اولمپک گولڈ میڈل میں 505 گرام چاندی اور 6 گرام سونا ہے (1912 کے بعد سے اولمپک گولڈ میڈل مکمل طور پر سونے سے نہیں بنے ہیں)۔ ان تمغوں کی خام قیمت ساڑھے نو سو ڈالر ہے۔
رقوم کے اعلانات متنازعہ ثابت ہوئے ہیں۔ بعض فیڈریشنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کا اقدام ’اولمپزم کی اقدار کو مجروح کرتا ہے‘ اور یہ ان کھیلوں کے لیے غیر منصفانہ ہے جو انعامی رقم کی پیشکش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
آئی او سی نے دلیل دی ہے کہ فیڈریشنوں کو اپنے فاتحین کو بڑے انعام دینے کی بجائے اپنے کھیل میں عدم مساوات کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
لیکن اولمپکس میں جیت صرف پیسوں کے لیے نہیں ہوتی، اس کا مقصد ایک عالمی اعزاز اور فخر حاصل کرنا زیادہ ہے۔ ناروے کے اولمپک چیمپیئن رکاوٹ کارسٹن وارہوم، نے اس بات پر زور دیا کہ اولمپکس میں جیت کی قدر اکثر کسی بھی مالی انعام سے زیادہ ہوتی ہے: ’گولڈ میڈل ذاتی طور پر میرے لیے بہت زیادہ قیمتی ہے۔‘