انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کو پاکستانی فوج کی جانب سے تحویل میں لیے جانے پر جہاں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن شادیانے بجا رہی ہے، وہیں کچھ تنقیدی نظریں ان پیچیدگیوں اور سوالات پر مرکوز ہیں، جو اس حراست کے بعد اٹھ رہے ہیں۔
ناقدین سوال کر رہے ہیں کہ کیا صرف ایک جنرل کے کورٹ مارشل سے ملک کے انتہائی پیچیدہ سیاسی اور سماجی مسائل حل ہو جائیں گے یا اس کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہو گی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے دورِ ملازمت میں جنرل فیض حمید کو اختیارات کا بےتاج بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ ان پر سیاسی امور میں مداخلت کرنے کا الزام صرف مسلم لیگ ن نے نہیں لگایا بلکہ دوسرے حلقوں کی طرف سے بھی ان پر مختلف الزامات لگائے گئے۔
اس معاملے سے اٹھنے والا پہلا سوال یہ ہے کہ اگر سیاست میں مداخلت غیرقانونی اور غیرآئینی ہے، تو پھر جنرل فیض حمید کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ماضی میں کئی ایسے اعلیٰ عہدے دار رہے ہیں جن پر الزام لگا کہ انہوں نے سیاست میں کھلم کھلا مداخلت کی۔
مثال کے طور پر سابق آئی ایس آئی چیف مرحوم جنرل حمید گل بغیر کسی احتسابی خوف کے یہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا اور اگر کوئی تحقیقاتی کمیشن بنایا جاتا ہے تو وہ پیش ہو کر ان وجوہات کو بیان کریں گے، جن کی بنیاد پر یہ اتحاد بنایا گیا تھا۔ اسد درانی بھی اسی قطار میں دکھائی دیتے ہیں۔
بالکل اسی طرح سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ پر بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سیاست اور خارجہ امور میں مداخلت کرتے تھے اور اس حوالے سے اپنی آئینی حدود کو سمجھنے کے بالکل قائل نہیں تھے۔
جنرل مشرف کے دور میں آئی ایس آئی کے سابق ڈپٹی چیف احتشام ضمیر پر الزامات لگائے گئے کہ انہوں نے مشرف کے دور میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بےقاعدگیاں کروائیں۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کو بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں کا سامنا تھا جبکہ جنرل ایوب اور جنرل مشرف کے دور میں ریفرنڈم اور انتخابات کو بھی جھرلو سمجھا جاتا ہے۔
تو اس معاملے سے اٹھنے والی پہلی پیچیدگی یہ ہو گی کہ اگر سیاست میں مداخلت غلط تھی تو یہ مداخلت صرف اس وقت غلط نہیں تھی، جب جنرل فیض آئی ایس آئی کے سربراہ تھے بلکہ اس مداخلت کو ہر دور میں غلط تصور کیا جانا چاہیے اور اس میں جو بھی جنرل ملوث تھے ان کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
جو اب حیات نہیں، ان کا معاملہ مختلف ہے لیکن جو جرنیل زندہ ہیں، انہیں تو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔
جنرل فیض کے کورٹ مارشل کی خبروں کے بعد ایک اور مسئلہ جو ممکنہ طور پہ اٹھے گا وہ یہ ہے کہ اگر سیاست میں مداخلت جنرل فیض کے دور میں ہو رہی تھی یا عدلیہ اور میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ کنٹرول اب ختم ہو گیا ہے اور کیا جنرل فیض کے بعد سیاسی امور میں مداخلت ختم ہو گئی ہے؟
اگر یہ مداخلت ختم ہو گئی ہے تو سوال اٹھایا جائے گا کہ سینیٹر فیصل واوڈا، جن کی کوئی اپنی سیاسی جماعت نہیں، وہ کس طرح ایوان بالا کے رکن بنے اور کس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے ان کے لیے فراخ دلی کے دروازے کھولے؟
کس طرح سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، جن کی کوئی سیاسی حمایت نہیں، وہ سینیٹ کی راہ داریوں تک پہنچے؟
بلوچستان سے منتخب ہونے والے کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے حوالے سے بھی یہی سوالات اٹھائے جائیں گے کہ ان کا کوئی سیاسی پس منظر یا عوامی حمایت نہیں تو وہ پھر کن طاقتوں کے بل بوتے پر ایوان اقتدار یا قانون ساز اداروں تک پہنچے؟
اگر جنرل فیض کے دور میں ججوں کو ہراساں کیا جا رہا تھا تو حالیہ دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور پنجاب میں مختلف عدالتوں کو نشانہ بنانے والے کون لوگ ہیں؟ کون ہیں جو خود ججوں کے بقول ان پر دباؤ ڈال رہے ہیں؟
بالکل اسی طرح اگر جنرل فیض کے دور میں آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹا جا رہا تھا اور سوشل میڈیا پہ قدغنیں لگانے کی کوشش کی جا رہی تھی، تو سوال یہ اٹھے گا کہ اب میڈیا کو کون کنٹرول کر رہا ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا اب میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ ملک میں خود کو ناقابل احتساب سمجھنے والے ادارے پر بھی تنقید کے نشتر چلائے یا تنقیدی تیروں کی یہ بارش صرف سیاست دانوں کے سروں پر ہی برستی ہے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ سوشل میڈیا پر قدغنیں جنرل فیض کے دور سے آج کئی گنا زیادہ ہیں۔
اس حراست کے حوالے سے ایک اور سوال جو کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آیا جنرل فیض حمید نے یہ سارے اقدامات اپنے بل بوتے پر کیے یا انہوں نے حکم کی بجا آوری کے لیے ایسا کیا؟
اگر ایسا سب کچھ حکم کی بجا آوری کے لیے کیا گیا تھا، تو پھر یقیناً اس کی زد میں وہ لوگ بھی آئیں گے جنہوں نے یہ حکم دیا تھا۔ یوں اس کارروائی کا سلسلہ جنرل فیض حمید پر نہیں رکے گا بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا۔
پاکستانی سیاست میں اداروں کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں اور یہ کسی بھی مرحلے پر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی، گو اس میں وقتی ٹھہراؤ ضرور آیا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ مداخلت کرتے ہیں وہ یہ وعدہ کریں کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہیں گے اور سویلین حکومت کو آئین کے مطابق وہ اختیارات استعمال کرنے دیں گے جس کی آئین انہیں اجازت دیتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔